قائد ؒ کا طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ

قائد ؒ کا طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ
قائد ؒ کا طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

طلبہ اور نوجوان کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ زندہ قومیں اپنے طلبہ اور نوجوانوں کو مستقبل کا معمار سمجھتی ہیں ۔

انفرادی طور پر ہر ملک کے نوجوان اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں، لیکن اجتماعی طور پر بر صغیر کے مسلمان نوجوانوں اور طلبہ نے تحریک پاکستان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے، تاریخ عالم میں ان کا جواب نہیں۔ قائد اعظمؒ نے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

تحریک پاکستان میں غریب نوجوان بھی تھے اور متوسط گھرانوں کے نوجوان بھی، لیکن آزادی کی تڑپ اور حصول پاکستان کی لگن ان سب کے سینوں میں برابر موجزن تھی۔

تحریک پاکستان میں لاکھوں مسلم نوجوان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی سب سے بڑی طاقت تھے۔ حصول پاکستان میں نوجوانوں نے نمایاں کردار ادا کیا اور اب استحکام پاکستان میں بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

قائداعظمؒ کا طلبہ اور نوجوان نسل سے بہت گہرا رشتہ قائم تھا۔ آپ کی شخصیت نوجوانوں بالخصوص طلبہ کے لئے انتہائی باعث کشش تھی۔ آپ نے قوم کے معماروں کو ضائع ہونے دینے کی بجائے ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

آپ نے انہیں ان کے اپنے اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرایا۔ انہیں اتحاد اور تنظیم کے لئے ابھارا۔ ان کو پاکستان کی افادیت اور اہمیت کے پہلو سمجھائے اور مطالبہ آزادی کو اس طرح پیش کیا کہ ان میں اپنا کھویا ہوا ماضی دوبارہ حاصل کرنے کا جنون پیدا ہو گیا۔ وہ اپنا شاندار ماضی حاصل کرنے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔


تحریک پاکستان میں دو محاذوں پر کانگریس کو شکست فاش اٹھانا پڑی۔ قیادت کے محاذ پر قائد اعظمؒ جیسا کوئی دماغ نہ تھا اور نوجوانوں کے محاذ پر جری، بے باک اور جان پر کھیل جانے والے نوجوان نہیں تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں مسلمان نوجوانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ قائد اعظمؒ نے مسلمان نوجوانوں کی طاقت کو جس طرح منظم کیا اور جس انداز میں اسے منزل بہ منزل استعمال کیا، اس کی مثال دنیا کے کسی بھی ملک کی تاریخ آزادی میں نظر نہیں آتی۔

قیام پاکستان کے وقت دیکھنے کو آیا کہ کس طرح نوجوان نسل نے قائداعظمؒ کاہراول دستہ بن کر قائد اعظمؒ کا پیغام اور تحریک پاکستان کا ایسا چرچا کیا کہ مخالفین کی ہوا اکھڑ گئی، جس کی واضح مثال قیام پاکستان سے قبل 1946ء کے عام انتخابات تھے۔

بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نوجوانوں اور طلبہ کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔ وہ نوجوانوں کی درخواست انتہائی مصروفیت کے باوجود ہمیشہ قبول کر لیتے تھے۔

آپ کے دل میں نسل نو کے لئے بے تحاشہ محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کہا کرتے تھے کہ ’’نوجوانو! زمانہ طالب علمی میں اپنی ذہنی و اخلاقی صلاحیتوں اور قوتوں کو ترقی دو ،تاکہ آگے چل کر بہترین شہری بن سکو‘‘ ۔۔۔آپ ہمیشہ نوجوانوں کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھتے اور ہمیشہ ان پر اعتماد کرتے، جس کے نتیجے میں نوجوان بھی دل و جان سے آپ کا حکم بجا لاتے اور ہمیشہ تمام مصروفیات کے باوجود طلبہ سے براہِ راست ملتے۔

ان کے جلسوں میں شرکت کرتے کراچی سے ڈھاکہ اور لاہور سے مدراس تک ہر شہر میں طلبہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے۔


قائد اعظمؒ نے برصغیر کے مسلم نوجوانوں کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور اس مشکل گھڑی میں قائد اعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تعمیر پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوت ارادی، توانائی، عمل اور عظمت کردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔

آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے‘‘ (لاہور میں طلبہ سے خطاب 30 اکتوبر 1937)قائد اعظمؒ نے نوجوانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا:’’نوجوان طلبہ میرے قابل اعتماد کارکن ہیں۔

تحریک پاکستان میں انہوں نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ طلبہ نے اپنے بے پناہ جوش اور ولولے سے قوم کی تقدیر بدل ڈالی ہے‘‘۔۔۔ 1937ء کے کلکتہ کے اجلاس میں قائد اعظم ؒ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’نئی نسل کے نوجوانو! آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں میں محفوظ رہے گا۔‘‘


ایک موقع پر قائد اعظمؒ نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں آج آپ سے سربراہ مملکت کی حیثیت سے نہیں ذاتی دوست کی حیثیت سے مخاطب ہوں۔ میرے دل میں نوجوانوں، خصوصاً طالب علموں کی بڑی قدرومنزلت ہے۔

آپ پر قوم اور والدین کی طرف سے بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ متحد ہوکر ملکی تعمیر و ترقی میں مصروف ہوجائیں‘‘ ۔۔۔ ایک دفعہ قائد اعظمؒ نے چھوٹے سے بچے سے جو پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا، نعرے کا مطلب پوچھا۔

بچے نے جواب دیا یہ تو بہت آسان ہے۔جہاں ہندو زیادہ ہیں، ہندو حکومت کریں، جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہاں مسلمان۔ قائد اعظمؒ نے بچے کی ذہانت کو سراہتے ہوئے فرمایا: اب پاکستان کے قیام کو کوئی نہیں روک سکتا۔

قائد اعظم ؒ نے جذبات ملی اور حمیت قومی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نوجوان مسلمانوں کو متحد ہونے کو کہا۔ قائد اعظمؒ نے ڈھاکہ میں نوجوان طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بنیں گے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔

یاد رکھئے کہ اب ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ یہ ہماری اپنی حکومت ہے۔ ہم ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے مالک ہیں، لہٰذا ہمیں آزاد اقوام کے افراد کی طرح اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہیے۔

اب ہم کسی بیرونی طاقت کے غلام نہیں ہیں۔ ہم نے غلامی کی بیڑیاں کاٹ ڈالی ہیں‘‘۔ قائد اعظم ؒ کی سب سے بڑی فتح یہ تھی کہ آپ مسلم نوجوانوں کے دلوں میں بستے تھے اور نوجوان اپنے قائد کے ایک اشارے پر سر پر کفن باندھے دوڑے آتے اور پھر اپنے قائد کے ساتھ مل کر انتہائی جانفشانی سے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے میں قائد اعظم کے زیر سایہ کامیاب ہوئے!
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

مزید :

رائے -کالم -