کئی اور غلطیوں کا اِزالہ

کئی اور غلطیوں کا اِزالہ
کئی اور غلطیوں کا اِزالہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میَں نے دیکھا ہے کہ بعض ثقہ قسم کے مسلمان ,قرآن کسی غیر مسلم کے ہاتھ میں دینے سے اعتراض کرتے ہیں۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب میَں بمشکل 16 سال کا تھا اور برطانیہ میں پاکستان ائیر فورس کی طرف سے 3 سالہ تربیت حاصل کررہا تھا۔ میرے ہم عمر مسلمان پاکستانی ساتھی کسی گورے کو قرآن کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے، کیونکہ اُن کے ناپاک ہاتھوں میں قرآن کا تقدس پامال ہو گا ۔

اُس وقت تو میَں دنیاوی طور پر بھی اَن پڑھ تھا (صرف میٹرک پاس تھا)اور دینی تعلیم سے تو بالکل ہی کورا تھا سوائے میکانکی طریقے سے نماز’’بھُگتانے‘‘کے۔ جب میری شادی ہو گئی میَں دنیاوی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر چکا اور اعلیٰ عہدے پر بھی فائز ہو چکا تھا یعنی اپنی جانب سے میچور ہو چکا تھا، تب میَں نے ایک عالمِ دین کی سی شخصیت رکھنے والے مولانا سے سوال کیا کہ قرآن کسی غیر مسلم کے ہاتھ میں دینے سے یا اُس کو مطالعہ کے لئے دینے سے مجھے گناہ ہو گا۔

مولانا نے بڑے وثوق سے قرآن کی آئت نمبر 56 سورت نمبر 79 کوQuote کیا کہ قرآن کو کوئی نہیں چھوئے گا جب تک کہ وہ طاہرِیا پاک نہ ہو۔ مجھے اس جواب سے تشقی نہ ہوئی، جس طرح قرآنی آیات میں پوشیدہ ہدایات اور احکامات کی اصل رُوح سے ناواقفیت ہونے کی وجہ سے، ہمارے مولوی حضرات نے مختلف تفسیریں لکھ کر دینِ اسلام کی سا لمیت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے یعنی فرقے بنا ڈالے ہیں اسی طرح ہمیں اَن پڑھ مولویوں نے اسلام اور قران سے ایسی باتیں جوڑ دی ہیں کہ آج کا پڑھا لکھا اور متجسِس نوجوان قرآن کی آفاقی سچائی پر شک کرنے لگتا ہے۔ میَں بھی اپنی پختہ عمری تک قرآن کے ترجموں اور تفاسیر سے مطمئن نہیں تھا ،لیکن مجھ میَں اپنے دین کو سمجھنے کا اور اس کی آفاقی سچائی کو جاننے کا جذبہ بہت شدید تھا۔
جمعہ کے خطبے میں جب کبھی میَں مولوی کے جوشِ خطابت میں غیر مستند باتیں سُنتا تھا یا جن کو میری عقل ماننے سے عاری ہوتی تھی تو میَں اپنے دین کے بارے میں تشکیک میں مزید مبتلا ہو جاتا تھا۔ قرآن میں ہم مسلمانوں کے لئے یہ ہدائت ضرور ہے کہ قران کو حالتِ پاکیزگی میں ہاتھ لگاؤ۔ وضو کر کے ہاتھ لگانے کا ذِکر نہیں ہے۔

قرآن اِنسانوں کی عالمگیر ہدائت کے لئے ایک Treatiseہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر مسلم اس کو عربی زبان میں نہ پڑھے۔ ہمارے مولانا لوگ حضرت عمرؓ کی مثال دیتے ہیں کہ جب وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اُن کو معلوم ہوا کہ اُنکی بہن اور بہنوئی مسلمان ہو گئے ہیں تو وہ غصہ کے عالم میں بہن کے گھر گئے وہاں پہنچ کر اُن کے کانوں نے بہن کو تلاوتِ قرآن کرتے سُنا تو بہت متاثر ہوئے۔ غصہ تو ختم ہو گیا اور حضرت عمرؓ نے بہن کو کہا کہ مجھے قرآن دکھاؤ۔

بہن نے کہا کہ پہلے وضو کر کے پاک ہو تو قرآن کو ہاتھ لگانا۔ یہ حکائت مجھے تو مولویوں کی دِگر حکائتوں کی طرح مبالغہ آرائی پر مشتمل نظر آتی ہے۔میرا ذہن یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھاکہ غیر مسلموں کو عربی زبان میں چھپے ہوئے قرآن کو پڑھنے یا ہاتھ لگانے سے ممانعت ہے۔ قرآن کا پیغام تو تمام اِنسانیت کے لئے ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ ’’یا ایہا الناس‘‘ کو کم از کم 306 مرتبہ مخاطب ہوتے ہیں اور مسلمان مرد و خواتین سے صرف 49 مرتبہ مخاطب ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارے دینی عُلماء نے قرآن کو اپنے اپنے نقط نظر سے سمجھا ہے اسی طرح،میرے خیال میں اُنہوں نے قرانی آیات 9/28 اور 56/79 کو بنیاد بنا لیا ہے کہ غیر مسلم قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ایسےُ علماء بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ قرآن پوری اِنسانیت کے لئے ہے اس لئے غیر مسلم بھی اس کو پڑھنے کے لئے حاصل کر سکتا ہے۔ میَں اِنُ علماء کا ہم خیال ہوں۔
ایک اور غلط فہمی جس کا شکار میںَ 12سال کی عمر میں ہی ہو گیا تھا وہ میرا بانسری بجانیکا شوق تھا۔ میرے دادا جی حکیم تھے، حکیم اجمل خان کے ہم عصروں میں سے تھے۔ اپنے نام کے ساتھ مولوی کا ٹائٹل لکھتے تھے یعنی بہت مذہبی بھی تھے۔

مجھے جب وہ بانسری بجاتے دیکھتے یا سنتے تو مجھے دو گالیوں سے نوازتے۔ مَردُدو اور مَلعُون۔ اُن دِنوں مجھے اِن گاڑھی قسم کی گالیوں کا مطلب نہیں آتا تھا۔ گالی دینے کے بعد دادا جی Sermon دیتے کہ بانسری بجانا شیطانی عمل ہے۔ اسلام میں موسیقی حرام ہے۔

میَں بڑی بیزاری سے اُن کا لیکچر سُنتا اور بہانہ کر کے اُن کی نظر سے دُور ہو جاتا۔ جب میَں عملی زندگی میں آیا تو میَں اپنی سوچ اور اپنے عمل سے مسلمانیت سے کوسوں دُور تھا۔ ایک دو دفعہ جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد میں اپنے اِقارب کے ساتھ ضرور گیا۔ وہاں بھی ایک خطیب صاحب نے جمعہ کے خطبے میں موسیقی کو حرام قرار دے دیا۔

میَں مسلمانوں کی ’’تنگ نظری‘‘ سے اور اسلام سے بھی بہت زیادہ مایوس ہو گیا۔ دراصل موسیقی کی حُرمت کے بارے میں قرآن میں ڈائریکٹ کوئی ہدائت نہیں ہے۔ جب میَں نے خود اپنے طورپر مطالعہ کیا قرانی آیات 22/30 اور 31/6 کی تشریح کا جو مختلف سکالرز نے لکھی تھی تو معلوم ہو ا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر ضروری باتوں اور لغویات (Vain talk) سے منع کرتا ہے، کیونکہ ایسے Vain talk ہمیں اللہ تعالیٰ سے دُور لے جاتی ہیں۔ ہمارے Dogmatic علماء نے فالتو باتوں یا اشغال کو موسیقی سے تعبیر دے دی۔

مجھے اس تشریح سے اِتفاق نہیں تھا۔ موسیقی کیا ہے؟ آوازوں کو ایک خاص رِدہم اور مختلف وقفوں یا تواتر سے اس طرح ادا کرنا کہ وہ آوازیں کانوں کو بھلی لگیں۔ آواز بھی اللہ نے دی۔

لَحن بھی اللہ تعالیٰ نے دیا۔ اوقات بھی اللہ نے دیئے، سننے والے کان بھی اللہ نے دیئے ۔ بتائیے ہمارے مولویوں نے قرآنی آیات کی "Vain talks" کو موسیقی سے کیوں نتھی کر دیا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو موسیقی آواز کو ایک Mathematical طریقے سے ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا سارا نظام ایک خاص Mathematical رِدہم سے چل رہا ہے۔ پرندوں کی خوش لَحنی بھی تو موسیقی ہی ہے۔

موسیقی میں کیا ہوتا ہے؟ لکڑی کی بنی ہوئی نَے سے منہ کے ذریعے ہوا پھونکی جاتی ہے اور اُس نَے سے گذرتے ہوئے سُر کو ہم موسیقی کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح لوہے کی باریک تاروں کو کسی Stricker سے رگڑیں تو جو آواز نکلے گی وہ بھی موسیقی ہو گی اور اگر ہم چمڑے کی جھّلی کو کھو کھلی لکڑی کے ڈبے پر چپکا دیں اور اُس پر وقفے وقفے سے تھاپ ماریں تو وہ ڈھو لک ، طبلہ یا دف بن جائے گی۔ موسیقی اگر بے ہودگی کے لئے ہو اور وہ آپ کو اِنسانیت سے دُور کرے تو وہ یقیناًبے کار اور وقت کا زیان ہو سکتی ہے۔

میَں اپنی نوجوانی میں کلب میں بِرج (تاش کا ایک کھیل)کھیلتا تھا۔ میرے دو ساتھی نماز کے عین وقت پر کھیل چھوڑ کر کلب کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے چلے جاتے تھے یعنی تاش کا ’’لغو‘‘کھیل اُنہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے سے نہیں روکتا تھا۔اگر میَں نماز پڑھنے نہیں جاتا تھا تو یہ میری اِنفرادی کوتاہی ہوتی تھی جس کا تعلق تاش کے کھیل سے نہیں ہوتا تھا۔ قرآن الحکیم اہلِ قریش کی فصییح اور بلیغ عربی کے اسلوب میں حضرت جبریل ؑ کی قِرأت کے ذریعے نازل ہوا تھا۔ یہ کوئی لکھی ہوئی تحریر نہ تھی۔

دنیا میں صرف عربی زبان کی ہی یہ خوبی ہے کہ لفظ کے مخرج سے لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ مثلاً اَلَم کے معنی درد(Pain) کے ہیں، لیکن اسی لفظ کو حلق کے آخری حصے سے بولا جائے یعنی عَلم تو اس کا مطلب جھنڈا (Flag) ہو جائے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے کے ذریعے اہلِ قریش کے ایک صادق ، امین، اُمی اور اعلیٰ اخلاق کے حامل بشر محمداِبن عبداللہ(ﷺ) کو قرآن (Recite) یعنی پڑھ کر سکھایا ،تاکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام مطلوبہ معنی میں انسانوں تک پہنچے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ غیر عربی دانوں نے قرانی آیات کے مختلف مطالب نکالے اور یوں دینِ اسلام کے کئی اہم معاملات میں تشریحی اِختلاف پیدا ہوا۔ فرقے بنے، کنفیوژن پھیلا، بہت سے مسلمانوں کے لئے فنون لطیفہ لغویات ٹہرے اس لئے حرام پائے۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نے فنونِ لطیفہ کو روح کی غذا سمجھا، موسیقی کو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے لئے بھی استعمال کیا۔ کلاسیکی موسیقی کی اِنتہاؤں کو بھی مسلمانوں نے ہی چھوأ، موسیقی کے کئی آلات بھی مسلمان صوفیوں نے ایجاد کئے ۔
Orthodoxy کسی بھی مذہب ، دھرم ، یا دین میں ہو، وہ اِنسانوں کو تنگ نظر بناتی ہے ۔ دقیانوسی اور Dogmatic چرچ کے خلاف 15 ویں صدی میں یورپ میں بغاوت ہوئی اور پروٹیسٹنٹ فرقہ آگیا۔ یہ فرقہ رومن کیتھولِک چرچ کی مخالفت میں اِتنی دُور چلا گیا کہ اس نے بے حیائی کی اِنتہا کر دی اور مسیحی عقیدے کی بنیادیں ہِلا دیں،بلکہ پروٹیسٹنٹ فرقے میں سے مزید فرقے بن گئے جو یورپ، امریکہ ، افریقہ میں بے شمار ہیں بالکل اسی طرح Dogmatic اِسلام منجمد اور اِنسانی فطرت کے خلاف ایک ایسا عقیدہ بنا دیا گیا ہے جو اپنے مزاج میں خشک اور غیر تخلیقی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ Orthodox اسلام جو اِجتہاد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، اُس کے مقابلے میں فوک اسلام (Folk Islam) زور پکڑ گیا۔ اس اسلام میں قوالی بھی ہے، رقص بھی ہے، شاعری بھی ہے، مصّوری بھی ہے، عُرس بھی ہیں اور پروٹیسٹنٹ فرقے کی طرح، فوک اِسلام بھی شِرک کی حدّوں تک پہنچ جاتا ہے۔ رُوحانیت ڈھُونڈتے ڈھُو نڈتے وہ اللہ تعالیٰ کی وحدت کو ہی چیلنج کر ڈالتا ہے۔

دونوں اِنتہاؤں میں پھنسا ہوا میرے جیسا مسلمان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کاش قرآن کے ترجمے غیرعربی زبانوں میں نہ ہوتے۔ قران کے احکامات Do's اور Do nots کی شکل میں دنیا کے تمام غیر عربی دان مسلمانوں کو پہنچا دیئے جاتے تو آج نہ فرقے بنتے اور نہ ہی تکفیری عُلماء وجود میں آتے۔

مزید :

رائے -کالم -