حکومتی رویہ اور ڈیڈلاک
وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے اقدامات کی کچھ تشہیر بھی کیا کریں۔ دراصل یہ اشارہ تھا کہ وزارت اطلاعات کا قلم دان دوبارہ فیاض الحسن چوہان کے حوالے کر دیں، کیونکہ ان سے قبل جن صاحب کے پاس یہ وزارت تھی، وہ بڑے ٹھنڈے وزیراطلاعات تھے۔ ان صاحب کا کہنا ہے کہ ان پر پہلے ہی دو وزارتوں کا بوجھ تھا، تیسری وزارت اطلاعات کے بوجھ سے کہہ کہہ کر جان چھڑائی ہے۔ فیاض الحسن چوہان نے صوبائی وزارت اطلاعات کے سٹیج پر دوبارہ انٹری دیتے ہوئے ”چُک پھٹے دتے نے“ کے مصداق وزیراعلیٰ پنجاب کی سوا سال کی کارکردگی کے ڈھیر لگا دیئے ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے کام گنواتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے قلیل مدت میں تقریباً 5سو کے قریب اقدامات کئے ہیں، حکومتی اخراجات میں کروڑوں روپے کی بچت کی ہے اور اربوں روپے مالیت کی زمین قبضہ گروپوں سے واگزار کرائی۔ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کا بڑا کارنامہ ہے۔15ماہ میں پنجاب میں 100کلومیٹر ماہانہ کے حساب سے 1500کلومیٹر طویل سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں۔ پنجاب میں 9 یونیورسٹیوں اور 9ہسپتالوں کی تعمیر شروع ہو گئی ہے۔ پنجاب میں ایک سال کے اندر 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے جو حوصلہ افزا اور قابل تعریف بات ہے۔ پہلی بار جنوبی پنجاب کے لئے 35فیصد بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ وزیراطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب واقعی وسیم اکرم پلس ہیں۔ پچھلے دس ماہ کے دوران ان کے کارناموں کو میڈیا میں پیش نہیں کیا گیا۔
فیاض الحسن چوہان نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ اس میں سارا قصور ہمارا ہے۔ اب مَیں وزیراطلاعات بن گیا ہوں۔ ان شاء اللہ ہر روز حکومت پنجاب، خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنے کا فریضہ سرانجام دوں گا، کیونکہ مسلم لیگ(ن) کے رہنما طلال چودھری پہلے عمران خان مائنس ون کی بات کرتے تھے، اب عمران بزدار پلس مائنس ون کی باتیں کر رہے ہیں۔ نوازشریف کو اپوزیشن کے کہنے پر علاج کے لئے باہر جانے دیا ہے، اب اپوزیشن کی ہر خواہش پوری نہیں کی جا سکتی۔ جس روز سے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اپنے اقدامات کی تشہیر کرنے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے بھی کمر کس لی ہے۔ وہ کئی بار صبح سویرے بغیر کسی پروٹوکول کے لاہور شہر میں صفائی ہوتے دیکھنے نکلتے، انہوں نے میٹروکارپوریشن لاہور کے عملہ خاکروبوں کو سڑکوں پر جھاڑو لگاتے، گندگی کو اٹھا کر گاڑیوں میں ڈالتے اور لے جاتے ہوئے چیک کیا ہے۔ ویسے یہ کام میرے آبائی قصبے (ٹاؤن کمیٹی) میں سپروائزر (جمعدار)، سینیٹری انسپکٹر کرتے ہیں اور ان دونوں کا کام ٹاؤن کمیٹی کے سیکرٹری شاہ صاحب چیک کرتے تھے۔ آج حیران ہوں کہ صفائی کے کام کی نگرانی بھی وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے ذمے لے لی ہے، اس کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب روزانہ کسی نہ کسی تقریب میں یہ بیان دے رہے ہیں کہ ”کرپشن کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے“…… خیر کوئی بات نہیں، یہ بات تو وہ اپنے بارے اور اپنے حکومتی ساتھیوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔
اپوزیشن کے پاس تو کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں ہیں،وہ تو اپنے دور کے ایک دوسرے کو دبا کر رکھنے کے لئے قائم کئے ہوئے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ اس میں موجودہ حکومت کا قصور یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے خلاف ان کے اپنے دور میں قائم ہونے والے مقدمات سے فائدہ اٹھانے کے لئے دن رات ان کی تشہیر میں مصروف ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ اپنے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب کے دوسرے پسماندہ علاقوں کا خیال کئے بغیر اپنے آبائی ضلع میں بزدار قبیلے پر مشتمل نئے ضلع کے قیام کے لئے ہوم ورک کروانا بھی کرپشن اور بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امیر محمد خان، نواب آف کالا باغ ایک صوبے کے نہیں، بلکہ پورے مغربی پاکستان کے گورنر تھے، ان کی حکم عدولی گناہ سمجھی جاتی تھی، وہ اپنے دور اقتدار میں میانوالی سے اپنے گاؤں تک سڑک تعمیر نہیں کروا سکے تھے، مبادا لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ نواب صاحب نے علاقے میں اپنے گاؤں تک سڑک پہلے بنوا لی ہے۔ اسی حوالے سے ایک اور سچائی یاد آ گئی۔
چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کے پنجاب کے زمانے میں چودھری محمد افضل ساہی سپیکر پنجاب اسمبلی تھے، ان کے بڑے بھائی کرنل (ر) غلام رسول ساہی رکن قومی اسمبلی تھے، ان کے حلقے میں سوئی گیس کی فراہمی کا کام ہو رہا تھا، گاؤں، گاؤں سوئی گیس کی پائپ لائن بچھ رہی تھی اور گیس کے میٹر نصب ہو چکے تھے، ان کے گاؤں کے معززین، برادری کے لوگوں کے علاوہ عام ووٹروں نے ان سے ملاقات میں گلہ کر دیا کہ سارے علاقے میں سوئی گیس لگ گئی ہے، مگر ہمارے گھروں میں آج بھی لکڑیاں جلا کر کھانا پکایا جاتا ہے۔ دونوں بھائیوں نے اپنی برادری کے معززین کو بتایا کہ پہلے پورے حلقے میں سوئی گیس دی جائے گی اور سب سے آخر میں ہمارے گھروں میں گیس سے چولہے جلیں گے اور واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔ سیاست دان تو بہت محتاط شخصیت ہوتے ہیں۔ دوسروں کا خیال پہلے کرتے ہیں، یہ بھی سیاست میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ملک میں حکومت بنانے والی تحریک انصاف کی ساری قیادت ہی اپوزیشن کے پیچھے بھاگ اٹھی ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کی جانب نہ تو حکمران توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی ان کے تھینک ٹینک انہیں عوام کے مسائل کی جانب توجہ دلا رہے ہیں۔ حکومت کا کاروبار چلانے کے لئے سیاسی ماحول کو معتدل رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے قانون سازی کرنا ہوتی ہے اور یہ کام کسی کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرا کر ان کے خلاف نعرے بازی کراکر نہیں لیا جاتا، یہ کام تو اپوزیشن جماعتوں کے ہیں جو حکومت نے اپنا رکھی ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف، چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران الیکشن کمیشن کی توسیع اور تقرری کے معاملات قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جانے والے ہیں، حکومت کو اپنی عددی پوزیشن اور اپوزیشن کی طاقت کا بخوبی علم ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا معاملہ فیصلے کے نزدیک پہنچ گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے فضل عباس میکن اور اپوزیشن کی جانب سے اخلاق تارڑ کے نام سامنے آ گئے تھے۔45روز میں آئینی طور پر حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنا ہے، مگر حکومت لڑائی جھگڑے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی، حکومت کے رویے سے تنگ آکر خواجہ آصف نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے، ڈیڈ لاک کا حل نکالا جائے۔