کیا حافظ حسین احمد" باغی" ہوگئے؟

کیا حافظ حسین احمد" باغی" ہوگئے؟
کیا حافظ حسین احمد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا شیرانی کو قریب سے دیکھا نہ سنا مگر حافظ حسین احمد کیساتھ  ایک سفر کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سنسنی خیز ٹی وی اینکر اور سیاسی تجزیہ کار کچھ بھی کر لیں ان کے من کی مراد پوری نہیں ہوگی........یہ بڑی لمبی رفاقتوں والے بڑے وضع دارلوگ ہیں.....یہ ہماری طرح کے جذباتی رومانٹک نہیں کہ جن کے ہاں ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے جائیں.....یہ بیعت والے لوگ ہیں اور یہاں اطاعت امیر چلتی ہے......کچھ بھی ہو جائے یہ "سرخ لائن" عبور نہیں کرتے....ابھی کل ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں حافظ صاحب کہہ رہے تھے کہ نیا گروپ نہ نئی پارٹی نہیں بنائینگے.....اگرچہ یہ بیان ہمارے میڈیا والوں کے لیے" بری خبر" ہے تاہم  "آخری خبر" بھی یہی ہے.....ہمارے خیال میں مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد اپنے "محور" سے کبھی باہر نکل  نہیں پائیں گے کہ مسجدوں کے یہ بوریا نشین مولانا فضل الرحمان نہیں مفتی محمود رح کے "مرشدخانے" سے وابستہ "مرید" ہیں.........کہتے ہیں کسی بندے کے بارے میں جاننا ہو کہ وہ کیسا ہے تو اس کے ساتھ سفر کرو.....چیختے چنگھاڑتے میڈیا کے ہنگام دھیمے مزاج والے حافظ حسین احمد کے ساتھ کئی سال پہلے کی ایک "سفری نشست" یاد آ گئی.......شکرگڑھ کے کچھ دوستوں نے فرمائش کی کہ اگر حافظ صاحب ہمارے پروگرام کو رونق بخش دیں تو ہماری خوش بختی ہوگی.....میں نے ہمیشہ کی طرح جامعہ اشرفیہ کے ترجمان مولانا مجیب انقلابی سے رجوع کیا....انہوں نے حافظ اعجاز الحق کا ریفرنس دیا.....انہوں نے گرین سگنل دیدیا کہ حافظ حسین احمد لندن واپسی پر شکرگڑھ تشریف لائینگے........غالبا برطانیہ جانے سے پہلے وہ مکہ مکرمہ میں تھے کہ حرم کعبہ میں بیٹھے ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران میری ان سے بھی بات کرائی تھی....سعودی عرب میں مقیم ہمارے" ننھیالی پنڈ" کے ایک "بزنس کلاس بھائی" ایک مسئلے میں پھنس گئے....انہوں نے کوئی 9سال بعد رجوع کیا ...ہم نے انہیں اپنا "کزن"ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر سعید  صاحب کے پاس بھیجا تو وہ اتفاق سے حرم میں حافظ صاحب کے ساتھ تشریف فرما تھے....حافظ صاحب نے کہا کہ اتنی دور سفارش کی کیا ضرورت تھی ....آپ مجھے کہتے میں یہ کام کرادیتا.....میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام کوئٹہ نہیں مکہ والوں کی طاقت سے ہی ہونا تھا ......حافظ صاحب لندن واپسی پر مقررہ تاریخ کو لاہور پہنچے ....میں نے انہیں حافظ اعجاز الحق کی رہائش گاہ سے لیا اور شکرگڑھ کو چل دیے.....اتفاق کی بات ہے مولانا فضل الرحمان ان دنوں بھی بوجوہ حافظ صاحب سے نالاں تھے.....مجھے علم تھا کہ حافظ صاحب "زیر عتاب "ہیں...تین چار گھنٹے کے سفر میں انہوں نے محسوس ہونے دیا نہ میں نے کریدا کہ وہ اس دن ہمارے مہمان تھے....راستے میں ہنستے مسکراتے، چہکتے مہکتے حافظ صاحب پھلھڑیاں اور شگوفے چھوڑتے رہے.....کسی کا فون آیا  کہ میں آپ کے پائوں پڑتا ہوں مجھے جلسے کی تاریخ دیدیں....حافظ صاحب نے کہا بھائی پائوں پڑنا نہیں پائوں پر کھڑے ہونا سیکھو....شکرگڑھ جاتی تیز رفتاری کے باعث جھومتی بس کے پیچھے "جھولے لعل" لکھا دیکھ کر بولے کہ یہی اس کی" عملی تصویر" ہے.....کالم نگار جناب مظہر برلاس کے گائوں کے پاس سے گزرتے بتایا کہ میں ان کا نکاح خواں ہوں.......یہ تو تھیں حافظ صاحب کی شرارتیں....اب سنجیدہ باتیں......راستے میں جے یو آئی کے کارکنوں کے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کمال انداز اپنایا کہ کسی کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کی مولانا سے کوئی کشیدگی چل رہی ہے....انہوں نے مفتی محمود رح کو بھرپور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صرف ان کے لئے اس خوب صورت انداز میں قائد جمعیت کا لفظ استعمال کیا کہ کسی کو مولانا یاد ہی نہ رہے اورکارکن دیوانوں کی طرح مفتی محمود زندہ باد کے نعروں میں کھو کر رہ گئے....شکرگڑھ میں بھی انہوں نے ایک لفظ مولانا کیخلاف نہیں بولا....جلسے کے بعد سیالکوٹ سے جے یو آئی کا ایک وفد آگیا کہ حضرت کل ہماری کانفرنس ہے اور مولانا فضل الرحمان چین دورے کی وجہ سے نہیں آرہے......آپ پاس آئے ہوئے ہیں تشریف لے آئیں تو مہربانی ہوگی....حافظ صاحب نے کہا کہ میں امیر صاحب کے حکم بغیر نہیں جا سکتا وہ مجھے فون کردیں میں حاضر ہو جائونگا....مولانا نے فون کرنا تھا نہ انہوں نے جانا تھا لیکن کسی کو خبر نہ ہوئی کہ" اوپر" کیا چل رہا ہے....اظہار ناراضی میں اظہار شکوہ کا یہ انداز نرالا دیکھا....بڑوں کی یہی بڑی باتیں انہیں بڑا بناتی ہیں....اگلی صبح حافظ صاحب اسلام آباد روانہ ہوگئے.....تب سے حافظ صاحب سے محبت کا رشتہ ہے.......گاہے گاہے ان سے بات بھی ہو جاتی ہے.....وہ ہمیشہ محبت سے پیش آتے ہیں....جب وہ دوبارہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنے تو انہیں مبارک باد دی...علالت کے بعد ان کا حال پوچھا اور ایک دو مہینے پہلے ان کی والدہ محترمہ کے انتقال پر اظہار افسوس کے لئے فون کیا ...حافظ صاحب گردوں کے مریض ہیں...اتنے خوب صورت انسان کو ناجانے کس بد بخت کی نظر بد کھا گئی.....اللہ کریم انہیں صحت کاملہ اور عمر خصر عطا فرمائے....ایسے نگینے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے ....دل چاہا کہ حافظ صاحب کو فوں کرکے صورتحال پوچھوں....پھر سوچا کہ دن ایسے ہیں کہ وہ میری کال کو بھی میڈیا کا چسکا ہی نہ سمجھیں.....
یہ آگ بھڑکانے نہیں بجھانے کا وقت ہے...بھائیوں میں اونچ نیچ ہوجاتی ہے.....سب میں خامیاں خوبیاں ہوتی ہیں.....کل تک مولانا شیرانی امام سیاست اور حافظ صاحب عندلیب جے یو آئی تھے ....اتنی جلدی وہ کیسے برے ہوسکتے ہیں......جمعیت کے تینوں بڑوں کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر کے مسائل گھر میں بیٹھ کر ہی حل کرنا چاہئیں....مولانا شیرانی اور حافظ صاحب بھی دور نہ جائیں اور مولانا فضل الرحمان بھی بیگانوں کی خاطر اپنوں کو دور نہ کریں کہ یہ ایک دو دن کی بات نہیں برسوں کی رفاقت کے قصے ہیں.....وہ اپنی اگلی نسلوں کو نفاق نہیں اتفاق کا تحفہ دیکر جائیں......ہمارے خیال میں آخر یہی ہو گا کہ متمدن ،مہذب سنجیدہ اور فہمیدہ علما کی تنظیم جے یو آئی کا اپنا خاص نظم ہے....ادھر کچھ نیا نہیں ہوگا.....مکرر عرض ہے کہ ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار کچھ بھی کر لیں ان کے من کی مراد پوری نہیں ہوگی.....

۔

     نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.

مزید :

بلاگ -