جرمنی: ڈنکرک سے حالیہ بغاوت 

 جرمنی: ڈنکرک سے حالیہ بغاوت 
 جرمنی: ڈنکرک سے حالیہ بغاوت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فرانس کے ساحلی شہر ڈنکرک میں تین لاکھ 50 ہزار برطانوی فوجی جرمن فوج کے گھیرے میں آ گئے تھے۔یہ مئی1940ء میں دوسری جنگ عظیم کی شروع کے دن تھے۔ ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کا نرغے میں آنا جرمنی کی بڑی کامیابی تھی۔ جرمن ٹینک دھڑا دھڑ ڈنکرک کی طرف بڑھ رہے تھے، فرانس بھی پریشان تھا۔  زمین  سے ٹینک، فضاء سے جرمن فائٹر بم گرا رہے تھے۔ 45 ہزار فرانسیسی فوجیوں نے برطانوی فوج اور حملہ آوروں کے مابین دیوار بننے کی کوشش کی۔ قریب تھا کہ سارے برطانوی فوجی گرفتار کر لئے جاتے کہ اچانک ہٹلر نے ٹینکوں کی پیش قدمی روک دی۔ یہ دو دن حصار میں آنے والی سپاہ کے لئے غنیمت ثابت ہوئے۔ جنگ کے دوران تو دوگھنٹے بھی بہت ہوتے ہیں۔ ڈنکرک کے ساحل سے برطانیہ زیادہ دور نہیں اور ڈنکرک کے قریب سمندر اتنا گہرا نہیں، وہاں بڑے جہاز شہر کے قریب لنگر انداز نہیں ہو سکتے۔ برطانیہ کی کوشش تھی کہ اگر 50ہزار فوجی بھی بچ جائیں تو بڑی کامیابی ہو گی۔ حکومت نے عوام سے مدد مانگی تو12سو چھوٹے جہاز اور  بڑی چھوٹی کشتیاں انخلاء کے لیے پہنچ گئیں۔ اِسے آپریشن ڈائنمو کا نام دیا گیا جو 26 مئی 1940ء کو شروع ہوکر چار جون تک جاری رہا۔ حیران کن طور پر تین لاکھ چالیس ہزار فوجیوں کو بچا لیا گیا۔ فرانس کے البتہ40ہزار فوجی برطانوی فوجیوں کا دفاع کرتے ہوئے مارے گئے یا گرفتار ہو گئے۔ برطانوی عوام جہازوں اور کشتیوں کے ساتھ نہ نکلتے تو اکثر فوجی بمباری میں مارے جاتے، سمندر میں ڈوب جاتے یا پھر گرفتار ہو جاتے۔ آئیے اب ڈنکرک سے جرمنی چلتے ہیں، آخر کار ہٹلر اور اُس کے ساتھ کھڑے ہونے والے ممالک جاپان اور اٹلی ہار گئے مگر ہٹلر نے نہ صرف جرمن قوم کو برتر ہونے کا احساس، یعنی قومیت کا درس دیا بلکہ اُن کے سر پراعلیٰ نسل ہونے کا بھوت بھی سوار کرا دیا تھا، جو اب تک سوار ہے۔ اِس نظریے کے بطن سے چند روز قبل ہونے والی  بغاوت نے جنم لیا۔ 

گزشتہ دنوں میں جرمنی میں وسیع الطبقاتی بغاوت ہوئی، یہ لوگ حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایک سو پانچ سال پرانی بادشاہت بحال کرنا چاہتے تھے۔ باغیوں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی، جج اور سیاستدان شامل تھے۔ بغاوت کے سرغنہ کے طور پر پرنس ہنرخ 13کا نام لیا جاتا ہے۔ اُس کے حامیوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہو گی تاہم جو سرگرم ہیں وہ 25 ہزار بتائے جاتے ہیں۔ جرمنی میں بادشاہت 9نومبر1918ء میں پہلی جنگ عظیم کے خاتمے سے دو روز قبل ختم کی گئی تھی۔ بادشاہت کے حامی آج بھی جرمنی کو عظیم بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہٹلر بھی ایسا ہی چاہتا تھا اور اِس کوشش میں سرگرداں بھی ہو گیا تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اُسے شکست ہوئی مگر جرمنوں کے عظیم تر بننے کے نظریئے کو دبایا نہیں جا سکا۔ بغاوت پر آمادہ افراد اُسی نظریئے کے قائل اور پیروکار لوگ ہیں۔ اُن کی بغاوت کے پس منظر میں برتر قومیت کا نظریہ ہے۔ ہنرخ 13 نے ایک شیڈو حکومت بنائی ہوئی ہے۔ وہ اور اُس کے حامی بہت سے قوانین کو نہیں مانتے۔ اب اُنہوں نے باقاعدہ ”کو“ کرنے کی کوشش کی مگر گرفت میں آ گئے۔ فوجیوں اور کچھ ججوں سمیت 25بڑے بڑے لیڈر گرفتار ہوئے، جن سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔اِس کے لیے 11 جرمن ریاستوں اور دو یورپی ملکوں اٹلی اور آسٹریا میں چھاپے مار ے گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں کسی بھی کارروائی کے لیے یہ سب سے بڑا آپریشن تھا۔ پولیس فورس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے تین ہزار سے زائد افراد اِس آپریشن میں شامل تھے۔


زندہ اور ترقی یافتہ قومیں بھی آزادی کو معاشی ترقی اورجدید سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ زندگی پر ترجیح دیتی ہیں۔ جرمنی آج کے پاکستان سے بہت  آگے ہے۔ خصوصاً صنعتی، ڈیجیٹیل ترقی اور ایک فلاحی ریاست کے طور پر جو آج عوام کو میسر ہے، بحیثیت پاکستانی ہمارے خوابوں کی پرواز بھی شائد اِتنی نہیں۔ جرمنی کی آبادی آٹھ کروڑ ہے اور دنیا کی کون سی آسائش ہے جو اُن کو میسر نہیں مگر اُن کے اندر قومیت کا بے پایاں جذبہ اور فاتحِ عالم بننے کا جنون ہے،گو کہ ہر جرمن ایسا نہیں سوچتا مگر ایسی سوچ رکھنے والے کم بھی نہیں ہیں۔ 
 دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جرمنی مکمل تباہ ہو گیا  اور اِس کو دو حصوں میں بانٹ دیاگیا۔ ایک مشرقی جرمنی اور دوسرا مغربی جرمنی۔۔۔45 سال تک مشرقی اور مغربی جرمنی کے لوگ  دیوار برلن کو برداشت کرتے رہے اور جب سوویت یونین میں گورباچوف کی وجہ سے انقلاب آیا تو جہاں وسطی ایشیائی ریاستیں ازبکستان، ترکمانستان، آرمینیا، منگولیا،آذربائیجان،بیلارس، یوکرائن اور دیگر ڈیڑھ درجن ریاستوں کو آزادی ملی وہاں دیوار برلن میں بھی  شگاف پڑ گئے پھر ایک دن یہ دیوار عوامی طاقت سے مسمار کر دی گئی۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی پھر سے ایک ہوگئے مگر جرمنوں کے دلوں میں اب سامراج کے خلاف نفرت کا لاوا پک کر جوالہ مکھی بن چکا ہے۔حالیہ بغاوت یا ”کو“ مستقبل میں کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔


پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور ترکی، اٹلی اور جاپان ایک طرف اور باقی یورپ اور ایشیا کی طاقتور قوتیں ایک طرف تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکی سرکار نے برطانیہ کے ساتھ مل کر شکست کھانے والے اِن چاروں ممالک پر جبری معاہدے مسلط کر دئیے۔ جاپان اور جرمنی 90 سال تک اپنے ملکوں میں امریکی فوجی اڈے رکھیں گے جبکہ ترکی کو سزا کے طور پر ٹکروں میں بانٹ دیا گیا جس کے نتیجے میں کئی ممالک بشمول  سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، اردن اور شام اور عراق وجود میں آئے اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ اِس معاہدے کے مطابق چند روز بعد نئے آنے والے سال 2023ء میں اِس معاہدے کی مدت پوری ہورہی ہے وہاں بھی ترک قومیت پسند جنونی ہیں وہ بھی اپنی اِسی شان و شکوہ کی طرف لوٹ رہے ہیں جو اُن کا طرہئ امتیاز تھی اور اِن کی جہانِ عالم پر ایک دھاک تھی۔وہ پُرامن طور پر اپنا کھویا مقام حاصل کرلیں گے مگر جرمنی میں ابھی چونکہ ایسا کوئی امکان نہیں لہٰذا وہاں اپنے مقصد کے حصول تک بغاوتیں سر اٹھاتی رہیں گی۔آپ نیشنلزم کو وقتی طور پر دبا سکتے ہیں، کُچل نہیں سکتے۔

مزید :

رائے -کالم -