آئیے فرمودات قائد کی کتاب خریدیں 

Dec 23, 2024

شفقت اللہ مشتاق

منزل کا راستہ بتانے والے اور اس راستے پر چلنے کا ڈھنگ سکھانے والے کارواں کے سالار کہلاتے ہیں اور محنت، ریاضت، علمی استعداد، قابلیت، وابستگی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بدولت منزل لا کر ان کے قدموں تلے رکھ دی جاتی ہے۔برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہر کوئی گو مگو کی کیفیت میں تھا۔ انگریزوں کے ساتھ مل کر چلا جائے۔ ہندوؤں سے اتحاد کرکے انگریزوں کو نکال باہر پھینکا جائے یا پھر ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا جائے۔ ہندو مسلم قیادت کی سوچ میں بھی اچھا خاصا اختلاف رائے پایا جاتا تھا۔ مذہبی قیادت مسلکوں کی بنیاد پر اپنی اپنی رائے رکھتی تھی۔ احرار کے قائدین کا بھی ایک اپنا موقف تھا۔ جاگیردار اور سرمایہ دار اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ادلتے بدلتے رہتے تھے۔روشن خیال لوگوں کی رائے میں بھی کوئی خاص کلیریٹی نہیں تھی تاریخ کا پہیہ مسلسل چل رہا تھا۔ فکری اساس میں روز بروز مسلسل پختگی آ رہی تھی۔ دنیا کے حالات بھی بڑی برق رفتاری سے بدل رہے تھے۔ پہلی جنگ ِ عظیم نے تو پوری دنیا کا نقشہ بدل دیا اور اور بے چارے مسلمان۔ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ اور مذکورہ جنگ کے فاتحین نے بیٹھ کر اپنی مرضی سے ترکی کے حصے بخرے کر دیئے۔ سامراجیت مزید طاقت پکڑ گئی۔ ہندوستان کے مسلمان اس ساری صورتحال سے کیسے بیگانہ رہ سکتے تھے۔ تحریک خلافت اور ہندوستان کی سیاست میں ہلچل۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے راہنما معتدل سوچ کے حامل تھے اور مسلمانوں کی فکری لحاظ سے تربیت کو ضروری سمجھتے تھے۔ مکالمہ کی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور بدلتے حالات کے پیش نظر اپنی حکمت عملی وضع کررہے تھے۔ اس سلسلے میں دہلی تجاویز(1927ء)، قائداعظمؒ کے چودہ نکات (1929ء) اور علامہ محمد اقبالؓ کا خطبہ الٰہ آباد (1930ء) قابل ِ ذکر ہیں۔ راہنما کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ حالات کی نبض پر مسلسل ہاتھ رکھتا ہے اور حالات کے اُتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھ کر علاج تجویز بھی کرتا ہے اور علاج کو یقینی بھی بناتا ہے۔ بدقسمتی سے 1937ء میں علامہ محمد اقبالؒ کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد ساری ذمہ داری کا بوجھ قائداعظم محمد  علی جناح ؒ کے کندھوں پر آ گیا۔انہوں نے ایک طرف سماج میں جا کر اپنی عوام دوستی کا عملی ثبوت دیا اور مسلمانوں کا مسلم لیگ پر اعتماد بحال کیا اور وقت کی نزاکت کے پیش نظر دوقومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر پاک وہند کی تقسیم کا مطالبہ کیا اور پھر مسلسل جہد ِ مسلسل، نیک نیتی اور محنت سے قیادت کرنے کا حق ادا کر دیا۔

مسٹر جناح کے سیاسی فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دلیل سے بات کی۔ دلیل کا جواب بھی دلیل سے دیا۔ حکومت وقت کو مدلل انداز سے بات کر کے نیچا دکھایا۔ہندو قیادت پر اپنی علمی اور فکری برتری ثابت کی۔ یہاں تک کہ نہرو اور گاندھی جیسے لوگوں نے بھی مجبور ہوکر تقسیم ہند کے حق میں ہتھیار پھینک دیئے۔ یقینا فہم وفراست کا کوئی جوڑ نہیں ہوتا ، جلاؤ گھراؤ کی سیاست کا ان کے ہاں کوئی وجود نہیں تھا، حالانکہ وہ چاہتے تو 1940ء کے بعد جا بجا آگ لگوا سکتے تھے۔ 1940ء سے 1947ء تک کا سفر مکالمے اور مذاکرات کا سفر ہے اور اس سفر میں قائد اعظم بتدریج معاملات اور حالات کے پیش ِ نظر دیکھ بھال کر آگے بڑ رہے تھے۔ بلاشبہ انگریز نے ہندوستان کو چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن ہندو ہندوستان کی تقسیم کے سرے سے ہی خلاف تھے۔ قائداعظم کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ انگریزوں کے بعد چونکہ ہندو عددی لحاظ سے اکثریت میں ہیں، لہٰذا مسلمانوں کا برصغیر میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ہاں پاکستان ناگزیر تھا اور پھر پاکستان 14 اگست 1947ء کو دنیا  کے نقشے پر ایک حقیقت بن کر اُبھر آیا۔ یہ ہے ہمارے قائد کی حکمت عملی اور اس کے نتیجے میں سکسیس سٹوری۔ اس سٹوری کو ابھی آگے چلنا تھا اور اس کا کلائمیکس بھی بڑا ہی مختلف ہونا تھا، لیکن افسوس 11ستمبر 1948ء کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ کائنات کا ایک اپنا نظام ہے اور ارتقاء کا بھی ایک اپنا سلسلہ ہے۔ تخلیقات میں تنوع کی بدولت خالی جگہ پر ہو جاتی ہے۔ کاش نئے آنے والے کی تعلیم تربیت اور فہم وفراست حالات کے مطابق ہو اور وہ اپنے پیش رو کے نظریات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اپنے آپ کو وارث سمجھے اور اس ورثے کا امین بن جائے۔ پاکستان کے تاریخی پس منظر کے پیش نظر یہ رائے قائم ہو چکی ہے کہ ان جیسا ان کے بعد کوئی بھی نہیں آسکا۔ آج کی نسل کو اس رائے کو تبدیل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر پاکستان کو آگے لے کر جا نا بہت مشکل ہے ہم نے پہلے بھی آدھا پاکستان گنوا دیا ہے،لہٰذا شور شرابے، افراتفری، ہیجان، جنون، مار دھاڑ، ہلڑ بازی، اشتعال، نفرت اور خون خرابہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ ملک ان ساری چیزوں کا اب متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہر شخص جس کا خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ہے وہ قائداعظمؒ کے فرمودات کی کتاب خرید لے اور یکسوئی سے پہلے اس کا مطالعہ کرے اور پھر اس پر پوری نیک نیتی سے عمل کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرے۔ یقینا ان فرمودات میں  عوام، بیورو کریسی، عدلیہ، مقننہ، سیاستدانوں، فوج اور پھر سب کے لئے دعوت فکر ہو گی۔اس دعوت کی بدولت سوچ میں تبدیلی آئے گی، خیالات میں پختگی آئے گی، مزاجوں میں سنجیدگی پیدا ہو گی،اپنے ملک وقوم سے وفاداری کے جذبات پیدا ہوں گے۔ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کا ڈھنگ آ جائے گا۔ ملکی وسائل کے استعمال کرنے کے سلسلے میں احساس ذمہ داری پیدا  ہو گا۔ حکومت اور مخالف بینچوں پر بیٹھنے والوں کو سیاسی شعور آجائیگا۔ عوام کی رہنمائی کے اصول ہم سب پر واضح ہو جائیں گے، بلکہ مختصر  ا چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور شاید اب آکر ہمیں چودہ نکات کی فکری اساس بھی معلوم ہو جائے گی۔ اپنی اساس کو بہتر کرنے کے لئے اپنے آباء کے فکری اساس کے تسلسل کو یقینی بنانا ہر قوم پر فرض ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو ہم سب کے سر سے گزر رہا ہے اور اسی لئے کافی سارا پانی بھی پلوں تلے سے گزر چکا ہے۔ قائد کی روح ہم سے روز تقاضا کرتی ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمارا یہ بھی مسئلہ ہے کہ ہم روحانی طور پر اندھے اور بہرے ہیں۔ اس کے لئے بھی مجاہدے، مراقبے اور ریاضت کی ضرورت ہے۔ تب جا کر روحوں کی پریشانی اور بدگمانی کا ہمیں احساس ہو گا اور ہم سب ایک ٹیبل پر اکٹھے ہو کر سر جوڑ کر بیٹھ جائیں گے تب جا کر باہمی اختلافات ختم ہوں گے، اعتماد کی فضا بحال ہو گی۔ سارے ادارے اپنی اپنی حدود میں آجائیں گے۔ سب کو قومی دھارے میں لا کر قائداعظم کے پاکستان کو ان کی سوچ اور فکر کی بنیاد پر ہم خوبصورت سے خوبصورت تر بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔آئیے فرمودات قائد کی کتاب خریدیں۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں