قارئین کی اکثریت شاید یہ سمجھتی ہو گی کہ امریکی، دنیا کی عقل مند ترین قوم ہیں …… شاید ایسا ہی ہو کہ اس دعوے کی دلیل میں لاتعداد حقائق ہمارے سامنے ہیں …… لیکن یہ امریکی، دنیا کی بے وقوف ترین قوم بھی ہیں!
اگلے روز اس کی ایک مثال انگریزی زبان کے ایک روزنامے میں ایک خبر دیکھنے اور پڑھنے کو ملی۔ اس خبر میں تفصیل دی گئی ہے کہ ”را کی ماؤنٹین“ (Rocky Mountain) کے دامن میں ایک وسیع و عریض میدان میں حکومتی سائنس دان ایک جدید ”الارم سسٹم“ پر کام کررہے ہیں۔ یہ الارم سسٹم، گلوبل پیمانے کا ہے جس میں ایسے آلات نصب اور ڈویلپ کئے جا رہے ہیں کہ جن کی مدد سے یہ پتہ چلایاجا سکے گا کہ وہ ملک کون سا ہے جو سورج سے نکلتی شعاعوں کو ”مدھم“ کرنے کی کوشش کررہا ہے یا ایسا کون سا ارب پتی دولت مند ہے جوان کوششوں میں مصروف ہے کہ کسی نہ کسی طرح سورج کی شعاروں کو ”مدھم“ کر دیا جائے۔
ایسا کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ آج کل عالمی پیمانے پر شور برپا ہے کہ کرۂ ارض کا موسم گرم ہو رہا ہے،سمندر زیادہ شدت سے اُبل رہے ہیں اور ان سمندروں میں جو گیارہ عدد امریکی طیارہ بردار بحری جہاز موجود ہیں اور جن میں ہزاروں افراد (مرد و زن سائنس دان، ملاح، انجینئرز وغیرہ) موجود ہیں، ان کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کوبچانے کے لئے کسی بزرجمہر نے یہ مشورہ دیا ہے کہ سورج کی شعاعوں کی شدت اور حدّت کو اگر کم کر دیا جائے تو یہ گلوبل درجہ ء حرارت کم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ بعض ممالک اب ایسی کاوشوں میں مصروف ہیں کہ آفتاب کی شعاعوں کو کرۂ ارض پر پہنچنے سے پہلے گرمی سے نرمی میں تبدیل کردیا جائے……
آپ سمجھتے ہوں گے کہ انسان کیسی کیسی احمقانہ سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہے۔ بھلا سورج کی شعاعوں کو ”کم گرم“ بھی کیاجاسکتا ہے؟اقبال کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتارکیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
تاہم یہ امربھی قابلِ غور ہے کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں، ان کے ماضی کے ماحول پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر ایجاد کے ظہورمیں آنے سے پہلے یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ناممکن العمل ہے۔لیکن جب یہ ایجاد منصہ شہود پر آ گئی تو گویا ایک معمول بن گئی…… کس کس ایجادکا ذکر کیا جائے؟……
اگر آج سے سوڈیڑھ سوسال پہلے کا کوئی مردہ قبر سے زندہ نکل کر آج کی دنیا میں آجائے تو اسے یقین نہیں آئے گا کہ یہ دنیا وہی ہے کہ جو وہ چھوڑ کر مرا تھا…… انسانی زندگی کی ارتقائی تاریخ کا مطالعہ بڑا حیرت انگیز لیکن دلفریب ہے۔ جو امریکی ”راکی ماؤنٹین“ میں یہ الارم سسٹم نصب کررہے ہیں، ان پر آج اگر لوگ ہنس رہے ہیں تو مستقبل میں شاید یہ ایک معمول بن جائے، شاید واقعی انسان سورج کی شعاعوں کو مدھم کرنے پر قادرہوجائے، شاید ہمارا کرۂ ارض جو آج شدید گرمی کی لپیٹ میں آ رہا ہے،اس کو کوئی سکون، کوئی ٹھہراؤ مل سکے…… آج کی ہزاروں ناقابلِ یقین ایجادات کا ماضی ہمارے سامنے ہے۔
اس خبر میں آگے چل کر یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ: ”ہر چند ہفتوں کے بعدامریکی ریاست کولوریڈو میں ایک بہت بڑا غبارہ چھوڑا جا رہا ہے جو آسمان میں 17میل (27کلومیٹرز) بلند ہوجاتا ہے۔اس قسم کے ’سائنسی غبارے‘ ہماری زمین کے مختلف حصوں میں چھوڑے جا رہے ہیں …… الاسکا، ہوائی، نیوزی لینڈ، افریقہ کے سواحلی ممالک حتیٰ کہ بحرِمنجمد شمالی اور جنوبی تک میں ان غباروں کو چھوڑا جاتا ہے اور ان کی مدد سے ہمارے اوپر جو فضا (Atmosphere) پھیلی ہوئی ہے اس کی گرمی سردی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس جائزے کی مزید تحقیق کے لئے دنیا بھر کی حکومتیں، سائنسی ادارے اور یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ ان پر لاکھوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں اور ”را کی ماؤنٹین“ میں یہ الارم سسٹم اسی وجہ سے قائم کیا جا رہا ہے کہ معلوم کیا جائے کہ سورج کی شعاعوں کو مدھم کرنے کے بہانے دنیا کے کون کون سے ممالک یا ان کے خود مختار ادارے ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جو سورج کی شعاعوں کو مدھم کرنے کی ”راہ پر گامزن ہیں!“……
میرے جیسے مشرق کے مکین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ انسان شاید پاگل ہو گیا ہے۔وہ اپنی زمین (کرۂ ارض) پر اپنے ”کرتوتوں“ کی خبر نہیں لے رہا اور ان کو مدھم یا کمزور کرنے کا کوئی پروگرام کسی ”راکی ماؤنٹین“ میں نہیں بنا رہا بلکہ زمین پر نگاہ ڈالنے کی بجائے آسمان کی وسعتوں میں پھیلے اپنے نظامِ شمسی کو تبدیل کرنے کی تگ و دو کررہا ہے۔ کیا مغربی خلانوردوں اور سائنس دانوں کو معلوم نہیں کہ کرۂ فضائی سے 100 کلو میٹر اوپر کرۂ خلائی میں لاتعداد نظام ہائے شمسی پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے اپنے سورج،چاند اور ستارے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی (سولر سسٹم) تو ان کے مقابلے میں ایک نہایت حقیر سا نظام ہے۔ نجانے امریکہ کے مغربی حصے پر جو سلسلہء کوہ پھیلا ہوا ہے اور جسے ”راکی ماؤنٹین“ کا نام دیا جاتا ہے اس پر یہ ”الارم سسٹم“ نصب کرنے کا اقدام ”خداوندِ کون و مکان“ کی نظر میں کیا منظر پیش کرے گا…… کسی کا کیا اچھا شعر ہے:
تخلیقِ کائنات کے دلچسپ جرم پر
ہنستا تو ہوگا، آپ بھی یزداں کبھی کبھی
اور شیخ سعدی نے تو اپنے ایک شعر میں ایسی بات کہہ دی ہے جو مشرق اور مغرب کے دانشوروں اور شاعروں کے لئے ایک لمحہء فکریہ اور ایک تازیانہ ہے۔ اس شعر پر حضرت اقبال نے جو تضمین کی ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔دس گیارہ اشعار پر مشتمل اس فارسی نظم کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
”ایک دن گلاب کی ٹہنی پر بیٹھا کوئی پرندہ دوسرے پرندوں سے کہہ رہا تھا…… آدمی کے اس بچے کو پنکھ نہیں دیئے گئے اور اس سادہ منش کو زمین ہی سے چمٹا کر رکھ گیا ہے…… میں نے اس پنچھی کو کہا کہ اگر میں تجھ سے ایک حق کی بات کہہ دوں تو ناراض مت ہونا…… ہم انسانوں نے پرندے کی جگہ ”طیارہ“ بنا لیا ہے اور آسمان کی طرف جانے والا راستہ بھی دریافت کر لیا ہے…… یہ طیارہ، فرشتوں کے پروں سے بھی زیادہ تیز رفتار پَر رکھتا ہے……پرواز میں عقاب سے زیادہ طاقت ور ہے اور لاہور سے فاریاب تک کا فاصلہ اس کی نظر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں …… یہ طیارہ آسمان میں جاتا ہے تو گڑگڑاہٹ پیدا کرتا ہے لیکن زمین پر سمندر میں مچھلی کی طرح بالکل خاموش بیٹھا رہتا ہے…… انسان کی عقل نے اپنی آب و گِل سے یہ جبرئیل (طیارہ) تخلیق کر لیا ہے اور زمین سے آسمان کا راستہ معلوم کرلیا ہے……جب اس پرندے نے میری باتیں سنیں تو مجھ پر ایک ایسی نظر ڈالی جس میں دوستی بھی تھی اور طنز بھی تھا …… اس نے اپنے پروں کو چونچ سے کھجایا (خارش کی) اور کہا کہ میں تمہارے خیال کے جواب میں جو کچھ کہنے والا ہوں اس پر ناراض نہ ہونا…… تمہاری نگاہ میں تو ہرنشیب و فراز موجود ہیں اور ہر پست و بلند پر تم نے قدر حاصل کرلی ہے…… لیکن“
اس کے بعد اس پرندے نے انسان سے مخاطب ہو کر جو شعر پڑھا وہ اقبال کی نظم کا آخری شعر ہے اور شیخ سعدی کا ہے اور جو یہ ہے۔
تو کارِ زمیں را نکو ساختی؟
کہ با آسماں نیز پرداختی
(ترجمہ: کیا تو نے زمین کے سارے کام سدھار لئے ہیں کہ اب آسمانوں کی طرف اپنے طیارے کے ذریعے اڑ رہا ہے؟)
یہ ایک ایسا طنز ہے جو اقبال نے اہلِ یورپ پر کیا ہے اور پوچھا ہے کہ یوں تو اقوامِ مغرب دن رات ترقی کررہی ہیں لیکن اس ”ترقی“ میں انسانی فلاح و بہبود کا کوئی گوشہ پایہء تکمیل کو نہیں پہنچا۔
امریکہ نے ”راکی ماؤنٹین“ پر جو الارم سسٹم لگایا ہے اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ انسان، زمین سے نکل کر ستاروں (سورج) پرکمندیں ڈالنے کی جو کوشش کررہا ہے، وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے…… بندہ پوچھے کہ پہلے اپنی زمین کی تو خبر لو۔ تم نے تو خود اس زمین کو ’گرم‘ کیاہے اور الزام سورج پر دھر دیا ہے اور اب سورج کی شعاعوں کو ”مدھم“ کرنے کی طرف لگا ہوا ہے! …… تُف ہے تم پر!!