بروقت انتخابات:مخالف کون؟
افواجِ پاکستان کی طرف سے عام انتخابات کے بَروقت انعقاد کی باقاعدہ حمایت سامنے آنے کے بعد یہ سوال ذہن پر ہتھوڑے برسا رہا ہے کہ موجودہ منظر نامے میں انتخابات کا مخالف آخر ہے کون؟.... اگر کوئی نہیں ہے تو پھر اس حوالے سے شکوک و شبہات کیوں ہیں؟.... اس سے بھی آگے چلیں تو یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جب عام انتخابات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تو پھر حکومت ان کے شیڈول کا اعلان کیوں نہیں کر رہی؟.... شیڈول کا اعلان کرنے میں کیا قباحت ہے اور اُس کے جمہوریت پر کیا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟.... کون ہے جو ان سوالوں کا جواب دے؟.... ان کا جواب تو مل نہیں رہا، البتہ جو سوال صرف سرگوشیوں کا حصہ ہیں، ان کا جواب ملک کے دونوں بڑے آئینی ادارے دے چکے ہیں، یعنی عدلیہ اور فوج۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ہم انتخابات کا بروقت انعقاد چاہتے ہیں، جبکہ افواج پاکستان کی وضاحت آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل عاصم سلیم کے ذریعے سامنے آچکی ہے۔ بادی النظر میں تو اب تمام تر ذمہ داری سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بے غرض اور دانشمندانہ فیصلے کرے۔ جہاں تک شکوک و شبہات کی بات ہے تو ان کا خاتمہ بھی اب کسی اور نے نہیں حکومت اور اپوزیشن میں موجود سیاسی قیادت نے ہی کرنا ہے۔
ایک مستحکم جمہوری معاشرے میں تو اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ ملک کی فوج کا ترجمان انتخابات کے بروقت انعقاد کی اپنی طرف سے یقین دہانی کرائے، لیکن ہمارے ہاں چونکہ بار بار فوجی مداخلت ہوتی رہیہے اس لئے یہ خوف دور نہیں ہو رہا۔ سیاستدانوں کی اپنی کوتاہیوں سے اگر معاملات میں انتشار پیدا ہو جائے، تب بھی دھیان اسی طرف جاتا ہے کہ شاید اس کے پیچھے ایجنسیوں یا فوج کا ہاتھ ہے، حالانکہ اب اس حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرلیا جانا چاہئے کہ پچھلے پانچ برسوں میں فوج کی طرف کوئی اشارہ نہیں دیا گیا کہ وہ جمہوری نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے، جبکہ ان پانچ برسوں میں متعدد ایسے مواقع آئے ، جب فوج اگر اپنی روایات کے مطابق جمہوریت کی بساط لپیٹنا چاہتی تو بآسانی ایسا کر سکتی تھی۔
ماضی میں تو فوج بغیر عوام کے بلاوے کے حکومت سنبھالتی رہی ہے، لیکن گزرے برسوں میں تو کراچی، کوئٹہ اور پشاور کے عوام نے خود یہ مطالبے کئے کہ ان کے شہروں کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ لاشوں کے ساتھ دھرنے ایسے جذباتی مناظر تھے کہ ان کی آڑ میں اگر فوجی مداخلت کی جاتی تو تالیاں ہی بجنی تھیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے سیاستدانوں کو ”شیر آیا، شیر آیا“ کا ڈراوا دینے کی بجائے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اپنی ہر ناکامی کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ تلاش کرنے سے پہلے اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ امن و امان کے سلسلے میں حکومت کی ناکامی اب کوئی راز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کو دور کرنے اور کارکردگی کو بہتر بنانے میں حکومت نے کیا سنجیدہ کوششیں کیں؟ کیوں کراچی اور کوئٹہ کے حوالے سے ہمیشہ مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسلم رئیسانی جیسے نا اہل وزیراعلیٰ کی بلوچستان میں حکومت کیوں اتنے عرصہ قائم رہنے دی گئی۔ سندھ میں قائم علی شاہ جیسے ایک بوڑھے وزیراعلیٰ کو کیوں مسلط رکھا گیا؟.... دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کی گئی؟.... سب کچھ تو حکومت کے کرنے کا تھا، مگر مو¿قف یہ اختیار کیا جاتا رہا کہ عدلیہ اور خفیہ ہاتھ، یعنی اسٹیبلشمنٹ کچھ کرنے نہیں دے رہی۔
اکثر لوگ یہ سوچ کر حیران ہوتے ہیں کہ عوام کو معاشی طور پر دیوار کے ساتھ لگانے اور ہر شعبے میں ناکام ثابت ہونے والی حکومت نے آخر پانچ برس کیسے مکمل کر لئے؟.... ماضی میں تو ایسی حکومتیں دو اڑھائی سال بعد گھر واپس بھیج دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے اکابرین تو صدر آصف علی زرداری کو کریڈٹ دیتے ہیں کہ ان کی دانشمندی اور سیاسی بردباری کے باعث جمہوری نظام نے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ اس میں کسی حد تک سچائی بھی ہے، لیکن اس سچائی کا تعلق عوام سے نہیں، بلکہ سیاسی اسٹیک ہولڈروں سے ہے۔ جنہیں صدر آصف علی زرداری نے اپنے اپنے مقام پر اس طرح خوش رکھا کہ انہوں نے باوجود خراب کارکردگی اور حالات کے حکومت پر کڑا وقت نہیں آنے دیا۔ انہوں نے شراکت اقتدار کا ایسا سنہری فارمولا متعارف کرایا کہ ملک میں حقیقی اپوزیشن صرف نام کی رہ گئی۔ سب اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور اسمبلیوں کے اندر حکومت کو ایک دن کے لئے بھی کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
تاہم صدر آصف علی زرداری کے فارمولے اپنی جگہ، اصل حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کے جرا¿ت مندانہ کردار اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کی فوج کو پیشہ ورانہ فرائض تک محدود رکھنے کی حکمت عملی نے ملک میں جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں اداروں کا کردار جمہوریت کو قائم رکھنے کے حوالے سے بہت مثبت رہا، مگر اس دور میں سب سے زیادہ نشانہ بھی انہی کو بنایا گیا۔ فوج کے خلاف میمو گیٹ جیسے سکینڈل بنائے گئے اور عدلیہ کے خلاف ارسلان افتخار جیسے کیسوں کو مُہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر فوجی آمر نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ عدلیہ پر شب خون مارا۔ پی سی او کے حلف اٹھوائے اور اپنے غیر آئینی اقدامات کی عدالت عظمیٰ سے توثیق کرائی، لیکن موجودہ سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ باب بند کر دیا۔ اپنی جوڈیشل پالیسی کے ذریعے کسی غیر آئینی تبدیلی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا باب خارج کر دیا۔ عدلیہ کے اس عظیم فیصلے نے سیاسی نظام کو وہ طاقت فراہم کی ہے جو ہر مہم جو کے لئے سربفلک دیوار بن گئی ہے۔ عدلیہ کے اس فیصلے کو سراہنے کے بجائے ہمیشہ طعنے دئیے جاتے رہے کہ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان نے جمہوریت کے کمزور ہونے کا پروپیگنڈہ کر کے بے یقینی کو بڑھایا گیا، حالانکہ اس کی قطعاً کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
جہاں تک عدلیہ کے حوالے سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے ضمن میں پھیلائی جانے والی افواہوں کا تعلق ہے تو ان کے غبارے سے بھی اس وقت ہوا نکل گئی، جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کی رٹ پٹیشن ابتدائی سماعت میں ہی خارج کر دی۔ عدلیہ کی اس بارے میں کوئی منفی سوچ ہوتی تو درخواست کی سماعت کا دائرہ کئی ہفتوں تک پھیلا دیا جاتا اور آئینی مدت میں انتخابات منعقد کرانا ممکن ہی نہ رہتا۔ اس وقت انتخابات کے حوالے سے گیند مکمل طور پر حکومت کی کورٹ میں ہے۔ شکوک و شبہات یا ابہام اگر موجود ہے تو اس کا تعلق عدلیہ یا فوج سے نہیں، بلکہ حکومت سے ہے۔ سیاسی فضا پر چھائے ہوئے بے یقینی کے بادل حکومت کی طرف سے انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی چھٹ جائیں گے۔ شیڈول کا اعلان نہ کرنے میں نجانے کیا مصلحت ہے، تاہم اس کی وجہ سے جہاں بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہاں قومی ادارے بھی دباو¿ محسوس کر رہے ہیں، جس کا اظہار آئی ایس پی آر کی حالیہ وضاحت سے ہوتا ہے۔ جمہوریت کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی سازگار ماحول ہو نہیں سکتا کہ جب سب قابل ذکر قوتیں بروقت انتخابات اور جمہوری نظام جاری رکھنے کے حق میں متحد نظر آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا کریڈٹ لینے کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنی کامیابی قرار دے کر مستقبل کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات کو عملی اقدامات کے ذریعے فوری دور کرنا چاہئے تاکہ قوم ووٹ کا حق استعمال کرسکے۔ ٭