این اے7 16بورے والا،برادری ازم اور علاقائی دھڑے،بند یوں نے کبھی سیاسی جماعتوں کو سبقت نہیں لینے دی
لاہور(شہباز اکمل جندران، معاونت احمد وسیم شیخ نامہ نگار)قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 167بوریوالا میں سیاسی ہلچل شروع ہوگئی ۔مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوارعوامی رابطے بڑھانے لگے۔ مہینوںمنہ نہ دکھانے والے رہنماﺅں نے حلقے میں مستقل ڈیرے ڈال لیے۔ تحصیل بورے والا سیاسی حوالہ سے ہمیشہ ضلع وہاڑی کی سیاست کا محور سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں سے منتخب ہونے والے ارکان ملکی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں جبکہ سیاست میں امیدواروں کی کامیابی میں برادری ازم اور علاقائی دھڑے بندیوں نے کبھی سیاسی جماعتوں کو سبقت نہیں لینے دی تاہم سیاست میں شخصیات کے کردار کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے 2002سے قبل قومی وصوبائی حلقوں پر سابق وزیر مملکت سید شاہد مہدی نسیم اور سابق ایم این اے چوہدری قربان علی چوہان گروپ کی گرفت رہی ہے لیکن 2002کے عام انتخابات کے نتیجہ میں این اے167سے چوہدری نذیر احمد جٹ نے(ق)لیگ کے پلیٹ فارم سے حیران کن کامیابی حاصل کرکے سیاسی نقشے کو یکسر تبدیل کر دیا اُنکی یہ کامیابی اُنکی شخصیت اور عوام کی جانب سے پرانے چہروں سے بیزاری بھی تھی جسکے بعد چوہدری نذیر احمد جٹ نے اپنے حلقہ میں سوئی گیس کی فراہمی اور دیگر میگا پراجیکٹس کے ذریعہ عوامی رائے کا رُخ اپنی طرف موڑ لیا تاہم ضلع کونسل کی سیاست پر سید شاہدی مہدی نسیم گروپ نے بھی اپنی شناخت برقرار رکھی 2008کے الیکشن میں این اے167سے چوہدری نذیر احمد جٹ دوبارہ اپنے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری محمود اختر گھمن اور (ن)لیگ کے امیدوار پیر محمد اقبال شاہ کو بھاری ووٹوں سے شکست دیکر ایم این اے منتخب ہوئے اس طرح (ق)لیگ نے یہ نشست اپنے نام کرلی جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی232سے پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری فیاض احمد وڑائچ نے ایک سخت مقابلے کے بعد(ق)لیگ کے امیدوار پیر غلام محیی الدین چشتی کو شکست دی اور حلقہ پی پی 233میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار خالد سلیم بھٹی نے سابق ایم پی اے(ن)لیگ کے امیدوار ڈاکٹر نذیر احمد مٹھو ڈوگر اور (ق)لیگ کے امیدوار چوہدری نذیر احمد آرائیں کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کرلی2011میں رکن قومی اسمبلی چوہدری نذیر احمد جٹ کی بی اے کی ڈگری کو چیلنج کرنے کے نتیجہ میں سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دے دیا جس پر اس حلقہ میں ضمنی انتخابات کے دوران اُنکے بھتیجے کو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اپنے مد مقابل (ن)لیگ کے امیدوار سید شاہد مہدی نسیم اور آزاد امیدوار چوہدری نذیر احمد آرائیں کے مقابلہ میں کامیابی حاصل ہوئی اس الیکشن کے بعد چوہدری نذیر احمد جٹ کے پیپلز پارٹی کے ارکان پنجاب اسمبلی سردار خالد سلیم بھٹی،چوہدری فیاض احمد وڑائچ اور ملک نوشیر خاں لنگڑیال سے شدید اختلافات شروع ہوگئے ایک طرف پیپلز پارٹی کی حکومت سے ترقیاتی فنڈز،سوئی گیس کے کنکشن اور دیگر ترقیاتی منصوبوں جیسی مراعات لیتے رہے دوسری جانب انہوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کوبھی بھر پور طریقہ سے تنقید کا نشانہ بنایا پر انہوں نے ضلع بھر میں اپنا آزاد گروپ بناکر حلقہ این اے167،168،169کے علاوہ دو صوبائی حلقوں سے اپنے امیدواروں کا اعلان کرکے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا این اے169سے وہ خود امیدوار ہونگے این اے168سے اُنکی بیٹی ڈاکٹر عارفہ نذیر اور167سے دوسری بیٹی عائشہ نذیر جٹ کو امیدوار نامزد کر دیا ہے اسی طرح حلقہ پی پی 232سے انہوں نے اپنے بھتیجے طاہر نقاش جٹ کو امیدورا نامزد کیا ہے مگر اس صورتحال میں بورے والا کے عوام کے ساتھ جو عجیب صورتحال پیدا ہوئی وہ یہ کہ این اے167سے منتخب ہونے والے چوہدری نذیر احمد جٹ کے بھتیجے اصغر علی جٹ نے اچانک اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے عارف والا کے حلقہ این اے166سے آئندہ الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے وہاں اپنی انتخابی مہم کا بھی باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور این اے 167کے گیس میٹر کنکشن اور بجلی کے متعدد ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز بھی عارفوالاکے لیے وقف کر دئیے ہیں جس پر پیپلز پارٹی کے حلقوں اور مقامی ووٹرز میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے اس اچانک تبدیلی کے ساتھ ہی حلقہ پی پی232سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے چوہدری فیاض احمد وڑائچ نے بھی اپنی نشست کے استعفیٰ دیکر ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی ہے اس طرح بورے والا کے عوام این اے167اور پی پی 232سے آئندہ انتخابات اور اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل ہی ایم این اے اور ایم پی اے سے محروم ہو گئے ہیں دوسری جانب مسلم لیگ(ن)کی طرف سے ابھی تک دو متحارب لیگی دھڑوں نسیم شاہ گروپ اور چوہدری نذیر احمد آرائیں گروپ کے مابین جاری اختلافات کی وجہ سے اپنے اپنے پینلز کے لیے ٹکٹوں کے حصول کی جنگ جاری ہے اور ابھی تک پارٹی قیادت ان دو گروپوں کے مابین اختلافات ختم نہیں کرواسکی حالانکہ مقامی سطح پر بھی دونوں دھڑوں کے مابین صلح کے لیے آخری حد تک کوششیں کی گئیں لیکن وہ بے نتیجہ رہیں اور میاں شہباز شریف کے دورہ بورے والا پر بھی دونوں گروپ ایکدوسرے کے مد مقابل نظر آئے جس سے آئندہ انتخابات میں صلح نہ ہونے کی صورت میں (ن)لیگ کی کامیابی بہت مشکل نظر آ رہی ہے نسیم شاہ گروپ کی جانب سے سید شاہد مہدی نسیم کی قیادت میں حلقہ پی پی 232سے اُنکے امیدوار چوہدری محمد یوسف کسیلیہ،پی پی233سے سابق سٹی ناظم چوہدری محمد عاشق آرائیں اور سید سلمان مہدی ٹکٹ کے لیے امیدوار ہیں دوسری جانب نذیر آرائیں گروپ کی جانب سے این اے167سے چوہدری نذیر احمد آرائیں،پی پی232سے پیر غلام محیی الدین چشتی،پی پی233سے سردار عقیل احمد شانی ڈوگر اور چوہدری ارشاد احمد آرائیں میں سے کوئی ایک امیدوار ہو گا تاجر اتحاد نے بھی پی پی 233سے ضلعی صدر انجمن تاجران محمد جمیل بھٹی کو متفقہ طور پر اپنا امیدوار نامزد کرکے(ن)لیگ کی قیادت سے ٹکٹ کے حصول کا مطالبہ کر دیا ہے محمد جمیل بھٹی کے مطابق اگر پارٹی نے انہیں ٹکٹ دے دیا تو پی پی233کی نشست پر(ن)لیگ کی یقینی کامیابی کی ضمانت دیں گے تاہم اگر پارٹی نے کسی اور امیدوار کو ٹکٹ دیا تو تاجر برادری پارٹی قیادت کا فیصلہ تسلیم کرے گی ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت تحریک انصاف نے بھی آئندہ الیکشن کے لیے اپنی عوامی رابطہ مہم شروع کر رکھی ہے این اے167سے ریاست علی بھٹی متوقع امیدوار ہونگے صوبائی حلقہ پی پی 233سے سابق تحصیل نائب ناظم رانا محمد مظفر خاں، سابق ایم پی اے حاجی خوشحال محمد ڈوگر کے بیٹے حاجی شہباز احمد ڈوگر،سابق چیئرمین بلدیہ چوہدری محمد اسلم(مرحوم)کے صاحبزادے چوہدری اعجاز اسلم اور سابق نائب ناظم میاں خالدحسین بھی متوقع امیدواروں میں شامل ہیں تحصیل بورے والا میں موثر عوامی رابطہ مہم ابھی تک صرف ریاست علی بھٹی کی جانب سے چلائی جا رہی ہے اور پی ٹی آئی کی سرگرمیوں کا مرکز ان کا دفتر ہی بنا ہوا ہے اسی وجہ سے وہ اپنی کامیابی کے لئے پر امید نظر آرہے ہیں اس تمام تر صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں (ن) لیگ کے دھڑوں میں صلح ہو جاتی ہے ،چوہدری نذیر احمد جٹ آزاد گروپ کے تحت ہی الیکشن میں حصہ لیتے ہیںیا پھر ”جیسے تھے“،اور اگر وہ پیپلز پارٹی کو خیر باد کہتے ہیں تو سابق تحصیل ناظم چوہدری عثمان احمد وڑائچ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور وہ مضبوط امیدوار ثابت ہونگے آنے والے دنوں میں مزید کیا سیاسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں یہ ملکی سیاسی حالات پر منحصر ہے ۔
الیکشن