خفیہ اداروں کی ناقص کارکردگی، تین سو اہلکار صوبہ بدر کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت نے ملک کے مختلف علاقوں میں خفیہ اداروں کے تین سو کے لگ بھگ اہلکاروں کے بین الصوبائی تبادلوں کا فیصلہ کیا ہے جن میں سے اکثریت صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تعینات ہے اور یہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے ڈپٹی ڈائریکٹر تک کا عہدہ رکھتے ہیں ۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق انٹیلی جنس بیورو، فرنٹیئر کانسٹیبلری کے خفیہ یونٹ اور سپیشل انویسٹی گیشن گروپ میں ان تبدیلوں کا اثر آئی ایس آئی پر نہیں ہوگا جو بظاہر وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے حالیہ شدت پسندی کے واقعات کے بعد خفیہ اداروں کی کاکردگی کا جائزہ لینے کے لیے کیبنٹ ڈویژن کے حکام پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی تھی۔شدت پسندی کے حالیہ واقعات کے بعد حکومتی اتحاد اور حزب اختلاف میں شامل جماعتیں خفیہ اور سکیورٹی کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں پر یہ بھی الزامات لگتے رہے ہیں کہ ان کے شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں جس کی وجہ سے ان تنظیموں کے خلاف کارروائیاں اکثر اوقات موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ان افراد کو ملک میں حالیہ شدت پسندی کے واقعات کے بارے میں قبل از وقت معلومات اکھٹی نہ کرنے اور کارکردگی نہ دکھانے پر تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں اتنی بڑی تعداد میں کبھی بھی خفیہ اداروں کے حکام اور اہلکاروں کی تبدیلی کا فیصلہ کبھی نہیں ہوا۔ خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کے بارے میں انٹر سروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی شامل نہیں تھی۔ آئی ایس آئی بظاہر سویلین خفیہ ادارہ ہے جو وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔کوئٹہ میں 16 فروری کو دھماکے کے بعد وزیر اعظم نے انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر کو تبدیل کرنے کے علاوہ ڈپٹی ڈائریکٹر کو معطل کردیا تھا جبکہ 10 جنوری اور 16 فروری کو ہزارہ ٹاو¿ن واقعہ کے بعدگورنر بلوچستان نے خفیہ اداروں کی کارکردگی پر سخت تنقید کی تھی۔ا±ن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات خفیہ اداروں کی ناکامی کا ثبوت ہے جبکہ سیکریٹری دفاع نے اس واقعہ کے رونما ہونے کی ذمہ داری سویلین انتظامیہ پر عائد کی تھی۔صوبہ بلوچستان اور ِخیبر پختون خوا میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کے سپیشل انویسٹی گیشن گروپ کے اہلکاروں کو بھی تعینات کیاگیا جن کی ذمہ داری شدت پسندی کے واقعات سے متعلق شواہد اور ان واقعات میں ملوث شدت پسند تنظیموں سے متعلق معلومات بھی اکھٹی کرنا ہے۔وزیر داخلہ رحمان ملک متعدد بار کاکردگی بہتر نہ دکھانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے چکے ہیں۔وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق کمیٹی نے صوبائی حکومتوں کے ماتحت کام کرنے والی خفیہ سی آئی ڈی اور سپیشل برانچ میں تعینات ایس پی رینک کے ایسے افسران کی کارکردگی کے بارے میں بھی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھیجنے کے بارے میں کہا ہے جو کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ارکان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے یونٹ کی سربراہی کر رہے ہیں۔