نئے سیاروں کی کھوج اور زمین زادوں کی حالت زار
قارئین دوہری اذیت کا شکار ہوں جب سننے کو ملتا ہے کہ سائنسدان زمین سے لاکھوں میل دور دراز کے سیاروں (مریخ وغیرہ) پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں مسلسل کامیابی حاصل کر رہے ہیں تو یقیناًدلی طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب زمین کے علاوہ انسان دوسرے سیاروں پر بسیرا کرکے وہاں کے وسائل سے بھی بھر پور استفادہ کر سکے گا ، یوں انسانی ترقی اپنی معراج کو جا پہنچے گی، لیکن دوسری جانب جب زمین زادوں کی حالت زار دیکھتا ہوں تو طبیعت مضمحل سی ہو جاتی ہے ۔۔۔جہاں تک نئے سیاروں تک رسائی کی بات ہے تو یہ حضرت انسان کی سرشت میں شامل ہے کہ وہ ہمیشہ نئی راہوں اور پُر اسرار منزلوں کی کھوج میں رہا اور ان کے حصول کے لئے جس طرح کے حالات کابھی سامنا کرنا پڑا ۔اس وقت بھی ماہرین کی ایک بڑی تعداد سوچ و بچار میں مبتلا ہے کہ ان دیکھے سیاروں تک کیسے پہنچا جائے ؟سائنسدان تجربات میں لگے ہوئے ہیں کہ اس قسم کے مشن کو کس طرح کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے؟خلائی سفر ایک نہایت ہی مشکل ترین مرحلہ ہے،طویل ترین خلائی راستوں میں کسی بھی لمحے ناموافق اور غیر یقینی صورت حال کا پیدا ہونا معمولی سی بات ہے، اس کے علاوہ سائنسی لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ خلا میں سفر کرنے والے اجسام پر لگنے والی مختلف کائناتی فورسز پر قابو پانا کتنا مشکل کام ہے ؟
اس سب کچھ کا سامنا کرنے کے بعد خلائی مشن کا کسی دوسرے سیارے پر بحفاظت اتر جانا اور ایئر کرافٹ میں لگے آلات سے صحیح طور پر معلومات حاصل کرنا کہ انسانی حیات کے لئے ضروری بنیادی اجزاء مثلا آکسیجن اور پانی کی مقدار کتنے فیصد پائی جاتی ہے اور زندہ رہنے کیلئے موزوں حالات کیا ہوں گے جیسے تمام عوامل کا درست اندازہ لگانا، یہ وہ کام ہیں جن کے لئے نجانے کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے کتنے سرمائے کی ضرورت ہے؟ کسی غریب ملک کے باشندے تو سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس کے باوجود اگر سائنسدان اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ صدی نہیں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہو گا ۔ راقم ایسی کوششوں میں مصروف تمام لوگوں کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جنہوں نے نئے راستے کھوجنے میں دن رات ایک کیا ہوا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو صورت حال نہایت مایوس کن نظر آتی ہے کہ عین اسی لمحے جب انسان منزلوں پہ منزلیں مارتا ہوا ستاروں پر بھی کمندیں ڈال چکا ہے۔ تب زمین پر انسانیت سسک سسک کر مر رہی ہے ، اب بھی دنیا کے آدھے سے زیادہ افراد بھوک ، ننگ و افلاس کا شکار ہیں ، جبکہ پوری دنیا میں 52ملین افراد کو اتنی خوراک میسر نہیں کہ وہ اپنی غذائی ضروریات (منرل اوروٹامن ) پوری کر سکیں۔
اس کے علاوہ صحت کے مسائل سے دوچار افراد کی تعداد کروڑوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے ، جس کی وجہ سے ا ن گنت افراد مختلف بیماریوں میں مبتلاہو کرمُلک عدم سدھار جاتے ہیں ۔ اندازہ لگائیں کہ دنیا کی 7 بلین آبادی میں کئی ملین افراد ایسی بیماریوں میں مبتلا ہیں ، جن کی ابھی تک تشخیص ہی نہیں ہو سکی ۔ علاج تو بعد کی بات ہے اور لاتعداد بیماریاں ایسی ہیں، جن کا علاج تو دریافت ہو چکا ہے، لیکن عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ مثال کے طور پردنیا بھر میں ہر سال 14ملین افراد کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں سے 8ملین موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ان میں سے 75فی صدکا تعلق غریب ممالک سے ہے جن پر توجہ دینے کی اشدضرورت ہے جس کے لئے میڈیسن کے شعبے میں ریسر چ کو مزید وسعت دی جائے اور نئے ریسرچ سنٹر بنا کر تحقیق کا دائرہ کار بڑھایا جانا نہایت ضروری ہے ۔کتنے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قدر تیز رفتار ترقی کے باوجود کرۂ ارض پر کئی ممالک ایسے ہیں جن کے باشندے جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں اپنا گھر،اچھی صحت،سوشل سیکیورٹی تو وہ لوازمات ہیں۔ جن سے آدھی دنیا واقف ہی نہیں اور تو اور2بلین افراد کو بجلی جیسی نعمت میسر نہیں، حالانکہ جوہری توانائی کے استعمال سے پوری دنیا کو توانائی مہیا کی جا سکتی ہے ۔بہر حال بہتر معیار زندگی اربوں زمین واسیوں کے لئے خواب کی سی حیثیت رکھتی ہے جو:
عصائے مرگ تھامے زندگانی
میرے سانسوں کا ریوڑ ہانکتی ہے
کے مصداق زندگی کی گاڑی کو کھینچ کھینچ کر اس قدر تھک ہار جاتے ہیں کہ بالآخر سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جاتی ہے۔
سردست ہر شعبہ ہائے زندگی میں کوئی فرد ایسا نہیں جو براہ راست کسی نہ کسی خطرے کی زد میں نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں تمام افراد کے سروں پر کوئی نہ کوئی خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ اگر صرف ترقی پذیر ممالک کی جانب نظر دوڑائی جائے تو ایک بڑی تعداد پہلے ہی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہے۔ اور جہاں تک ترقی یافتہ ممالک کا تعلق ہے تو وہاں کے باشندے بھی مکمل طور پر اپنے آپ کو محفوط نہیں سمجھتے ، کیونکہ اپنی ہی ایجادات کے نتیجے میں انسانیت بارود کے اس ڈھیر پر بیٹھی ہے جسے اگر ہلکی سی چنگاری بھی دکھا دی گئی تو اربوں انسان لقمہ اجل بن جائیں گے اور جو بچ گئے، وہ تڑپ تڑپ کر مریں گے، کیونکہ ان کیمیائی ہتھیاروں اور تابکار مادوں کے اثرات سینکڑوں سال تک بر قرار رہتے ہیں، اس موضوع پر انشاء اللہ پھر کبھی سہی۔۔۔ تو پہلے کیوں نہ اپنے آپ کو محفوظ کر کے جینے کا طریقہ تلاش کیا جائے اور ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اپنے سیارے پر امن و آشتی کے گہوارے ہوں اور چہار سمت خوشیوں کے بادل منڈلا رہے ہوں، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ترقی کی منازل طے کرنے کی دوڑ میں اور آگے نکلنے کے چکر میں قدرتی ماحول کی تباہی سے لے کر اپنی تباہی تک ہم اپنے ہاتھوں سے وہ سامان پیدا کر چکے ہیں کہ چھوٹی سی غلطی کے بعد واپسی ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری نسل کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔
تحقیق کا رخ اگرمثبت سمت میں موڑ دیا جائے اور مناسب اقدامات اٹھائے جائیں تو بہت سارے عوامل ایسے ہیں کہ زمین نامی اس سیارے کے باسیوں کے لئے کافی بہتر حالات مہیا کئے جا سکتے ہیں ۔باقی نئے سیاروں کی کھوج انسانی فطرت کا حصہ بن چکی ہے اور وہ اس وقت تک جستجو میں لگا رہے گا جب تک کسی نتیجے پر نہ پہنچ پائے۔اب یہ سب کچھ کسی عام انسان کے لئے تو فی الوقت صرف دلچسپی کا سامان ہے، لیکن سائنسدان کافی سنجیدہ ہیں اور وسائل کی تلاش سے آبادکاری تک راستہ ہموار کرنے کی جستجو میں ہیں۔ راقم ذاتی طور پر سائنس کا سٹوڈنٹ ہے اور نت نئی ایجادات کا حامی، لیکن کسی دوسرے سیارے پر زندہ رہنے کے لئے زمین جیسا ماحول پیدا کرنا اگر ناممکنات میں شامل نہیں تو ممکنات کے قریب ترین بھی نہیں، پھر ان چیزوں پر اتنا زیادہ وقت ضائع کرنا سمجھ سے بالاتر لگتا ہے ۔ خیر تھوڑے وسائل کا استعمال کر کے اگر اپنے کرُے پر بہتری کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو زیادہ دور رس نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں اورکم از کم ر ہماری خواہش تو یہی ہے کہ اپنے سیارے کی خوشحالی پر توجہ دینے کے بعد کسی اور دنیا کی تلاش کے لئے طویل مسافتوں کا سامان باندھا جائے تا کہ آنے والے وقتوں میں خدانخواستہ کچھ اس طرح کی صورت حال نہ پیدا ہو جائے:
بنجر دھرتی پوچھ رہی ہے
چاند پہ کس نے شہر بسائے