تعلیمی اور ثقافتی روایات کے احیائے نو کا آرزومند ہوں

تعلیمی اور ثقافتی روایات کے احیائے نو کا آرزومند ہوں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


فرزند لاہور سردار دیال سنگھ مجیٹھیہ (1849-1998) نے خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر اہلیان لاہور کو دیال سنگھ کالج کی صورت میں ایک لافانی تحفہ عنایت فرمایا۔ امرتسر کے اس وقت کے گورنر سردار لہنا سنگھ کے اس بیٹے نے مشن چرچ سکول سے تعلیم حاص کی اور انگریزی زبان میں کمال حاصل کرنے کے لئے یورپ چلا گیا۔ مطالعہ مذاہب عالم، موسیقی، پتنگ بازی، پہلوانی اور شطرنج جیسے متنوع شوائق کا حامل یہ متمول، فیاض، بالغ النظر، انسانیت نواز اور ترقی پسند نوجوان امرتسر میں اعزازی مجسٹریٹ اور پہاڑی ریاستوں کا گورنر بننے سمیت متعدد انتظامی عہدوں پر فائز رہا۔ براہموسماج تحریک کا بنیادی رکن ہونے اور ادب سے گہرا لگاؤ رکھنے کے باعث نہ صرف شاعری کی اور مضامین لکھے بلکہ ہمعصر ادیبوں اور شاعروں سے مراسم بھی استوار کئے۔ دیال سنگھ نے سرسید احمد خان کے علی گڑھ سکول سمیت کئی ایک تعلیمی اور سماجی اداروں کی مالی معاونت کی۔
پنجاب یونیورسٹی کے قیام و استحکام میں بھی دیال سنگھ کا کردار اس قدر ستائش سے ہمکنار ہوا کہ آپ کو یونیورسٹی کی سینٹ کا ممبر نامزد کر دیا گیا۔ قبل از تقسیم ہندوستان میں تشکیل پذیر معاشرے کے لئے جدید تعلیم کی اہمیت و ضرورت کو سمجھتے ہوئے دیال سنگھ نے 1893ء میں لاہور میں یونین اکیڈمی کی بنیاد رکھی جسے 1910ء میں پنجاب کے گورنر سرلوئیس ڈین نے کالج کا درجہ دیا اور اس کا نام دیال سنگھ کالج رکھا۔
یہاں یہ بات لائق ذکر ہے کہ دیال سنگھ سرسید احمد خان سے بہت متاثر تھا۔ سرسید 1884ء میں علی گڑھ کالج کے لئے چندہ جمع کرنے کی غرض سے پنجاب کے دورے پر آئے تو دیال سنگھ 30جنوری 1884ء کو اپنے چند احباب کے ساتھ لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور سرسید کا بھرپور استقبال کیا۔ سرسید نے لاہور میں مہاراجہ کپور تھلہ کی کوٹھی میں قیام کیا۔ یکم فروری 1884ء کی سہ پہر کے وقت سرسید خود دیال سنگھ سے ملنے کے لئے اس کے گھر گئے۔ لاہور میں قیام کے دوران میں سرسید نے ایک گروپ فوٹو بھی بنوایا تھا جس میں سردار دیال سنگھ بھی شامل تھا۔ سرسید جب علی گڑھ واپس پہنچے تو وہاں سے انہوں نے مولوی سید ممتاز علی کے نام اپنے ایکخط میں سردار دیال سنگھ کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا۔گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سردار دیال سنگھ بھی دراصل سرسید کی تحریک کا پروردہ تھا۔ اگر سرسید لاہور نہ آتے تو ممکن تھا کہ دیال سنگھ کالج کا آج وجود ہی نہ ہوتا۔
گورنمنٹ دیال سنگھ پوسٹ گریجویٹ کالج اپنے قیام کی دوسری صدی میں داخل ہو چکا ہے۔ لاہور کے عین مرکز میں واقع یہ کالج بالخصوص درمیانے اور نچلے طبقات کے بچوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ وطن کی تعمیر و ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
دیال سنگھ کالج کے فارغ التحصیل نمایاں تر طلباء کی طویل فہرست میں جنرل (ر) نزاکت علی خان، منیر الدین چغتائی، ڈاکٹر رفیق احمد (وائس چانسلر)، منیر نیازی، ایئر مارشل (ڑ) انور شمیم، اعجاز درانی (فلم سٹار)، ناصر نقوی، نجیب احمد، خالد احمد اور بے شمار ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہم تر افراد شامل ہیں۔د یال سنگھ کالج کا اعزاز یہ بھی ہے کہ برس ہا برس سے نابغہ روزگار اساتذہ کرام نے یہاں علم و دانش کے چراغ روشن کئے ہیں اور تاریک دلوں کو جگمگایا ہے۔ مثلاً سید عابد علی عابد، شمس علماء تاجور، نجیب آبادی، اشفاق احمد خان، انجم رومانی، مولانا فاروق، کلیمنٹ ولیم، بی اے خان، طالب ترمذی، ظہیر الدین ،ظفر علی خان، محمد طارق، نورالامین ملک ، راؤ خلیل حمد، محمد اشرف صدیقی، ناصر محمود صدیقی اور ڈاکٹر محمد شعیب کا شمار کالج ہذا کے ان اساتذہ کرام میں رہا جن کا ذکر عقیدت و احترام کے جذبے سے کیا جاتا ہے۔
1910ء میں قائم ہونے والے دیال سنگھ کالج کا پہلا ماہ وار رسالہ ’’یونین‘‘ کے نام سے 1912ء میں جاری ہوا۔1919ء میں اسے دیال سنگھ کالج میگزین کا نام دے دیا گیا۔ یہ سلسلہ 1947ء تک جاری رہا۔ قیام پاکستان کے بعد اس میگزین کو ’’بہار‘‘کا نام دے دیا گیا۔ بعد میں شعبہ ء اردو کے پروفیسر محمد نذیر مہل نے دوبارہ دیال سنگھ کالج میگزین کا نام دے دیا۔ 1970ء کی دہائی میں اسے ’’افشاں‘‘ کا نام دیا گیا لیکن اب ہم نے اسے ’’دیالین‘‘ (Dialian) کا نام دے دیا ہے۔ دیالین تقریباً ایک ماہ کے بعد چھپ جائے گا۔
پرنسپل گورنمنٹ دیال سنگھ کالج پروفیسر نعیم اکبر یٰسین پیدائشی لاہوری ہیں۔ اگرچہ کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن درس و تدریس کو انہوں نے پیشے کے طور پر اختیار کیا اور یوں کیا کہ یہی ان کا عشق بھی بن گیا اور اب ان کا شمار ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتا ہے۔ سیاسیات پر ان کی دو کتابیں چھپ چکی ہیں جو ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر پڑھائی جاتی ہیں۔ انہوں نے یکم دسمبر 2016ء کو گورنمنٹ دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کا چارج سنبھالا۔ اس سے پہلے وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے وابستہ تھے۔ سیاسیات ان کا مضمون ہے لیکن شعر و ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ انہیں اساتذہ کے ہزاروں اشعار یاد ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے شاعری میں تحریف نگاری(یعنی پیروڈی) کے فن کا ملکہ عطا کیا ہے۔ آپ انہیں کوئی شعر سنایئے وہ کھڑے کھڑے اس کی پیروڈی کر ڈالیں گے۔ گورنمنٹ ایف سی کالج اور گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے بھی وابستہ رہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں ماہر مضمون اور محکمہ جاتی نمائندے کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔
پروفیسر نعیم اکبر یٰسین چونکہ صاحبِ نظر ہیں اس لئے انہوں نے گورنمنٹ دیال سنگھ کالج میں پرنسپل کا چارج سنبھالتے ہی کئی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے سیکیورٹی کا نظام بہتر بنا دیا۔ کالج میگزین کی اشاعت کا حکم دیا۔ شعر و سخن کی محافل کا سلسلہ شروع کیا۔کالج گراؤنڈ میں چالیس درخت اپنے خرچ پر لگوائے۔ تا ہم انتظامی حوالے سے کالج کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس کے لئے حکومت کو جلد از جلد اقدامات کرنے ہوں گے۔


شخصیت: پرنسپل گورنمنٹ دیال سنگھ کالج پروفیسر نعیم اکبر یٰسین
انٹر ویو:زلیخا اویس
عکاسی: عمر شریف
گورنمنٹ دیال سنگھ کالج گردونواح کے بے تحاشہ شور و غل کے باوجود اپنی ہئیت و وقار برقرار رکھے ہوئے ہے۔ متنوع تجربے کے حامل، فاضل اساتذہ کرام، متین و اطاعت گزار طلبا اور محبت اور مروت سے لبریز فضا اس تاریخی ادارے کے روشن تر مستقبل کی دلیل اور ضمانت ہیں۔ اگر ہم ماضی کی بات کریں تو بہت سارے تعلیمی ادارے ایسے رہے ہیں جہاں طلباء یونینز کی باہمی دشمنی نے خوف کا سا ماحول پیدا کر رکھا تھا۔درجنوں طلباء یونین کی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ان تعلیمی اداروں میں اسلحے کی بازگشت کئی سالوں تک سنائی دیتی رہی جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے ڈرتے تھے۔طلباء یونینز کی سیاست کے حوالے سے کئی دیگر بڑے تعلیمی ادارے قابل ذکر ہیں لیکن ’’دیال سنگھ کالج‘‘ کا کردار ہمیشہ ہی موضوع بحث رہا ہے۔تاہم گزشتہ چند برسوں سے دیال سنگھ کالج کا ماحول اس قدر خوشگوار ہے کہ یہاں ’’کو ایجوکیشن‘‘ اپنے عروج پر ہے اب لڑکیاں بھی یہاں زیر تعلیم ہے۔کالج میں نئے نئے کورسز متعارف کروائے جا رہے ہیں ریسرچ کا کلچر فروغ پا رہا ہے اور لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی کالج ہے جس کے آگے سے بھی گزرتے ہوئے طلباء اور والدین ڈرتے تھے۔کالج میں خوشگوار تبدیلیوں کے حوالے سے ’’روزنامہ پاکستان‘‘ نے دیال سنگھ کالج کے پرنسپل ’’پروفیسرنعیم اکبر یٰسین ‘‘ سے گفتگو کی جو نذرِ قارئین ہے۔
س:سربراہ ادارہ کے طور پر دیال سنگھ کالج کا حصہ بننا آپ کو کیسا لگا؟
ج:سربراہ ادارہ کے طور پر دیال سنگھ کالج کا حصہ بننا میرے لئے شرف و افتخار کا باعث ہے۔انشاء اللہ آنے والے چند سالوں میں یہاں بے شمار مثبت تندیلیاں آئیں گی۔ میں سمجھتا ہوں ایک معاون تعلیمی ماحول تخلیق کرکے اور طلباء کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی شخصیت کو توازن اور آہنگ دیا جا سکتا ہے۔ میں اپنے واجبی تدریسی اور انتظامی تجربے کی روشنی میں وقت کی آزمائش پر پورا اترنے والے دیال سنگھ کالج سمیت ایسے کئی تعلیمی مراکز دیکھ سکتا ہوں جو آنے والے وقت میں تبدیلی کے عمل کو مہمیز کریں گے۔ اس کے لئے ہمیں اپنی موجودہ تعلیمی سرگرمیوں کا از سر نو جائزہ لینا ہوگااور علم کے روایتی پھیلاؤ کے عددی معیارات سے ہٹ کر تحقیق اور تخلیق کے نئے معیارات کو اپنانا ہوگا۔ہم اپنے طلباء کو معیاری تعلیم دینے کے لئے سخت محنت کر رہے ہیں۔پیشہ ورانہ صلاحیت قومی زندگی کے موجودہ کٹھن دور میں ناگزیر رخت سفر ہیں۔ تبدیلی واجب اور ناگزیر ہے۔ یہ کہاں سے آئے گی! یقیناًتبدیلی ہماری مادر علمی سے آئے گی جہاں ہر لحظہ قوم کی تقدیر بن اور سنور رہی ہے۔
س:بحیثیت سربراہِ ادارہ آپ نے اس کالج کی تعمیرو ترقی کے لئے کیا اہداف مقرر کئے ہیں؟
ج: میری کوشش ہے کہ میں،کالج کے تعلیمی و تدریسی ماحول کو مزید بہتر بنا کر کالج کے نظام الا وقات کے مطابق ہر سطح کی کلاسز کا انعقاد بروقت اور یقینی بنانا،کالج میں نظم و ضبط کو فروغ دینا , ہم نصابی سرگرمیوں مثلاً تقریری مقابلوں ، مباحثوں، شعری مقابلوں، اہم موضوعات پر سیمینارز اور سپورٹس کو فروغ دینا۔کالج میں سیکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ دینا اور طلبا و طالبات کے تحفظ کو یقینی بنانا۔کالج لائبریری کو مزید بہتر بنانا۔ میرا شروع سے ہی یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ طلبہ وطالبات کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لیا جا سکے ۔
س:ماضی اور حال کے دیال سنگھ کا لج میں کیا فرق ہے ؟
ج:گزشتہ کئی سالوں سے اس کالج کے حالات اتنے اچھے نہیں رہے۔والدین یہاں اپنے بچوں کا داخلہ کروانے سے ڈرتے تھے لیکن میں نے بطور پرنسپل اپنی تقرری کے بعد تمام سیاسی عناصرنکال باہر کیا اور کالج کے ماحول کو پڑھنے کیلئے سازگار بنایا ہے۔اس کالج میں ایسی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا جس نے والدین اور طلباء کو امن اور سکون کا پیغام دیا۔آج ہمارے کالج میں بچیاں بھی زیرِ تعلیم ہیں اور انشاء اللہ آنے والے دنوں میں ان کی تعداد بڑھے گی۔ آپ کہہ سکتی ہیں کی دیال سنگھ کالج سے سے غنڈہ گردی کا کلچر ختم ہو چکا ہے۔
س: طلباء یونینز کے حامی ہیں ؟
ج :دنیا کے تمام جمہوری ملکوں میں تعلیمی نظام کو آگے بڑھانے کیلئے طلباء تنظیمیں موجود ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں طلباء تنظیموں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں، کیا۔ ان تنظیموں کو ہمیشہ فساد پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اگر تعلیمی اداروں اور دفاتر میں یونینز لائی گئیں تھیں تو اجتماعی مفاد کیلئے لائی گئیں تھیں لیکن اگر اس کا غلط استعمال کیا گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یونینز کا بنانا ہی غلط اقدام تھا۔یہ بات سچ ہے کہ ماضی میں طلباء تنظیمیں شر پسند عناصر کا آلہ کار بنتی رہیں جس کی وجہ سے تعلیمی معاملات بھی خرابی کی نذر ہوئے۔ بہر حال موجودہ صورتِ حال میں ان تنظیموں پر پابندیے کا فیصلہ درست ہے۔ میں نے دیال سنگھ کالج سے یونین کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے، جس کمرے میں یونین کا دفتر تھا ، اُسے خالی کروا کر کلاس روم بنا دیا گیا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی ادارے کا ماحول ایسا ہونا چاہیے جہاں طلبا وطالبات کی اخلاقی و تخلیقی تربیت ہو نہ کہ وہ سیاست اور فساد سیکھیں۔
س:آپ کے ہاں کتنے اور کون کون سے کورسز کروائے جا رہے ہیں؟
ج:الحمدللہ گزشتہ ایک دہائی سے کالج میں تعلیمی سرگرمیاں نمایاں طور پر فروغ پذیر ہیں۔کالج میں اردو، انگریزی مطالعہ پاکستان، اسلامیات ، سیاسیات ،کمپیوٹر سائنس ، تاریخ، کامرس، فزکس ، فزیکل ایجوکیشن، کیمسٹری، باٹنی، عربی، فارسی، پنجابی ، تاریخ، ریاضی ، جرنلزم کے مضامین کی مختلف سطحوں پر تدریس کا اہتمام ہے۔
طلبا و طالبات کی خواہش کے پیش نظر ایم اے (انگلش، اردو سیاسیات) اور ایم ایس سی(ریاضی) کی کلاسوں کا اجرا ہو چکا ہے۔ سوشل سائنسز میں بھی مزید کورسز لائیں گے ۔ کمپیوٹر کورسز کا بھی اہتمام کیا ہے۔ آئی سی ایس، آئی کام اور بی کام کی کلاسیں صبح اور شام کی شفٹوں میں جاری ہیں۔ کالج میں بی اے کی سطح پر بچیوں کے داخلے شروع کئے جارہیں ہیں۔
ہمارا تدریسی عمل پر وقار انداز میں سارا سال جاری و ساری رہتا ہے۔ ڈگری اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر طالبات بھی پرامن اور محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ سائنس اور سماجی علوم سمیت تمام مروجہ علوم میں یہاں طلبہ و طالبات امن و سکون کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
س: کالج میں کون کون سے نئے کورسز متعارف کروائے جارہے ہیں؟
ج: جلد یہاں ایم ایس سی(کیمسٹری) کی کلاسز کا اجراء بھی کیا جائے گا،’’بی بی اے‘‘چار سالہ پروگرام بھی شروع کریں گے اس کے علاوہ تمام Market Oriented Courses متعارف کر وائیں جائیں گے تاکہ طلبا وطالبات کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مند بنایا جاسکے ۔
س : یکساں نظامِ تعلیم کے حوالے سے کیا کہیں گے جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیمی معاملات صوبوں کو منتقل کر دئیے گئے ہیں ایسے میںیکساں تعلیمی نظام کی توقع کی جا سکتی ہے؟
ج: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام ہونا چاہیے ہمارا موجودہ سسٹم کئی گروپس اور کئی ذہن پیدا کر رہا ہے یکساں تعلیمی نظام سے ہم ایک نقطے پر سوچنے والی قوم پیدا کر سکتے ہیں اور اگر تمام صوبے اپنی اپنی ثقافت کے مطابق قومی پالیسی کو مد نظر رکھ کر نصاب میں چیزیں شامل کریں تو ایسا ممکن ہے ،بہت سارے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں یکساں تعلیمی نظام موجود ہے۔ہمارے ہاں کیوں نہیں ہو سکتا۔
س:پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے فرق کو کس طرح بیان کریں گے؟
ج :اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد خاصی زیادہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پبلک ادارے اچھی تعلیم نہیں دے رہے اس لئے والدین کا رجحان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف زیادہ ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پبلک اداروں میں پڑھنے والے ہی اصل میں اس قوم کے وارث ہیں وہ اس قوم کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور ملک کی ضروریات کو سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے دیا،نجی لوگوں نے تعلیم کو بھی بزنس بنا لیا ہے جس کا نتیجہ تعلیمی نظام کی تباہی کی صورت میں سامنے آرہا ہے،اگر سرکاری تعلیمی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوں گے تو بھی وہاں ایک ڈسپلن دکھائی دیگا۔

س: کالج میں ریسرچ اور پریکٹیکل کی کیا صورتحال ہے؟
ج:تحقیق کے معاملے میں معاملات بہتری کی طرف ہی جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ہمارے ہاں ریسرچ پر خاصی توجہ دی جارہی ہے مگر یہ کوشش ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے سائنس لیبز کو اپ گریڈنگ کی ضرورت ہے۔جیسے جیسے نئے کورسز آئیں گے اُسی حوالے سے ریسرچ کلچر کو فروغ ملے گا۔ لیبز کی صورتِ حال بھی بہتر ہو گی ۔ کالج میں ریسرچ کے کلچر کو متعارف کروانے کا مطلب یہ ہے کہ جب طالب علم ہائر ایجوکیشن کیلئے جائیں تو انہیں پہلے سے ہی ریسرچ کی ابتدائی چیزوں کے بارے میں اچھی طرح سے معلومات ہوں۔
س :کیا آپ موجودہ تعلیمی بجٹ سے مطمئن ہیں؟
ج:بجٹ تو بہت کم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم لوگ تعلیم پر جی ڈی پی کا بہت کم خرچ کر رہے ہیں اگر تعلیمی بجٹ میں مناسب حد تک اضافہ کر دیا جائے تو بہت سارے تعلیمی معاملات باآسانی حل ہو سکتے ہیں۔میرے حساب سے جتنا ترقی یافتہ ممالک تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں ہمیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیے۔حکومت ادارے کو جو فنڈز دیتی ہے وہ ناکافی ہیں۔ اس حولے سے گورنمنٹ کو لکھا ہے، اُمید ہے جلد مسائل حل ہوں گے۔
س:اردو زبان کو رائج کرنے کا فیصلہ کس حد تک درست ہے؟
ج: یہ فیصلہ بالکل درست ہے اور بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا،اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن جہاں تک انٹرنیشنل تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بات ہے تو وہ ہم صرف اردو زبان کے ساتھ نہیں ہو سکتے اس کے لئے ہمیں انگریزی زبان بھی سیکھنی ہو گی، تعلیمی شعبے میں ترقی کے لئے انگریزی کو لٹریچر نہیں بلکہ بطور زبان پڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں طلباء کو ترجمہ،لفظوں کو سیکھنے اور ان کے استعمال کی مشق کروانی چاہیے۔

س :کالج کی سرگرمیوں کے حوالے سے بتائیں؟
ج: یہاں سارا سال مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا رہا ہے طلبہ و طالبات کی ذہنی نشو و نما کے لئے علمی ، ادبی اور سائنسی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ اور طالبات میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوو نما اور ان کے ذہنی اُفق میں وسعت پیدا کرنے کے لئے مختلف انجمنیں قائم کی گئیں ہیں، جو باقاعدگی سے اپنی سرگرمیاں سر انجام دیتی ہیں۔ کھیل اور ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی طلباء نے کالج کا نام روشن کیا ہے۔خوبصورت آرٹ گیلری اورعلمی،ادبی اور ہم نصابی تقریبات کے لئے محمد علی جناح آڈیٹوریم موجودہے، جسے اپنی تاریخی حیثیت اور کشادگی کے سبب غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔
کالج میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی اخلاقی تربیت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے لئے خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کالج میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے۔کالج کے وسیع و عریض میدان اور سبزہ زارر ہرے بھرے پودوں، رنگ برنگے پھولوں اور گھنے درختوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ کیاریوں اور پگڈنڈیوں کے ساتھ ساتھ کمروں، برآمدوں اور راستوں کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ طلبا وطالبات کے لئے تمام سہولیات موجود ہیں:* کالج ٹرانسپورٹ * کالج میں دو لائبریریاں ہیں ،مرکزی اور پوسٹ گریجویٹ۔مرکزی کتب خانہ میں مقبول و مروج مضامین سے متعلق طلبہ اور اساتذہ کے لئے کم و بیش تمام ضروری کتب موجود ہیں۔ ان میں وقت اور ضروریات کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کتب خانے کے اندر مطالعہ کے لئے نشستوں کا معقول انتظام موجودہ ے۔ تازہ ترین اخبارات اور تحقیقی رسائل کتب خانے کے اوقات کے دوران میں استفادے کے لئے روزانہ موجود رہتے ہیں۔ جبکہ پوسٹ گریجویٹ کتب خانہ صرف ایم اے/ ایم ایس سی کلاسوں کے طلبہ کے استعمال کے لئے ہے۔
کالج میں جدید سائنسی آلات پر مشتمل سائنس لیبارٹریوں کے علاوہ ایک عدد کمپیوٹر لیبارٹری بھی موجود ہے۔ مستقبل میں کمپیوٹر کے میدان میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے لئے طلباء و طالبات کو تیار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں طلباء و طالبات کی ہر نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے سوسائٹیز بورڈ اور کھیلوں کے فروغ کے لئے سپورٹس بورڈ ہمہ وقت سرگرم ہیں۔طلباء و طالبات کی مالی مشکلات کے ازالہ کے لئے کالج انتظامیہ نے کالج فیس میں رعایت کو کالج ٹیسٹ/ امتحانی کارکردگی سے مشروط کر رکھا ہے۔ مزید برآں گورنمنٹ / بورڈ/ یونیورسٹی/ مخیر حضرات کی طرف سے دیئے گئے میرٹ سکالرشپس بھی وقتاً فوقتاً ذہین اور محنتی طلباء و طالبات کو دیئے جاتے ہیں۔
* کالج میگزین افشاں جسے اب ’’دیالین کا نام دے دیا گیاہے جو طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے* کالج خبرنامہ* فیس معافی کمیٹی *کالج کی مختلف علمی و ادبی انجمنیں*کالج سپورٹس آفس* پارکنگ سٹینڈ* کالج گراؤنڈز*کمپیوٹر سنٹر*کالج ہال برائے تقریبات* کنٹرولر امتحانات* رجسٹرار آفس۔
ہماری مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ یہاں ایسا ماحول فراہم کیا جائے ، جس میں نہ صرف اعلیٰ اور معیاری تعلیم و تدریس کا عمل بلارکاوٹ جاری رہے، بلکہ انہیں ہم نصابی سر گرمیوں مثلاً تقریری، شعری اور ذہنی آزمائش کے مقابلوں اورتحقیقی و معلوماتی سیمنارز میں بھی بھرپور شرکت کا موقع ملے۔ اس سلسلے میں طلبہ اور طالبات کے لئے وہ تمام اقدامات کئے جاتے ہیں، جن سے ان کی ذہنی اور تعلیمی ترقی ممکن ہوسکے۔
یہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ اس کالج کو تعلیمی، ہم نصابی اور کھیلوں میں جو شاندار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، وہ کالج انتظامیہ اور اساتذہ کی شب و روز محنت کا ثمر ہے۔
یہ ادارہ حکومت پنجاب کی تعلیم دوست پالیسیوں کو شفاف طریقے سے روبہ عمل لاتا ہے۔ ان تھک انتظامی، تدریسی اور ہم نصابی مجالس اپنی تعمیری سرگرمیاں ہمیشہ جاری رکھتی ہیں۔ دفتری عملہ بھی اپنے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دیتا ہے۔
س:مقابلے کے اس دور میں دیال سنگھ کالج کو کہاں دیکھتے ہیں؟
ج:گورنمنٹ دیال سنگھ کالج کو ایک اعلیٰ معیار کا پوسٹ گریجویٹ کالج بنانے میں شب و روز کوشاں ہوں اور سلسلے میں مجھے اپنے تمام رفقائے کار کا مکمل تعاون حاصل ہے ۔
گورنمنٹ دیال سنگھ پوسٹ گریجویٹ کالج ایک صدی پرانا تعلیمی ادارہ ہے اپنے نئے آنے والوں کے کردار کی تشکیل کیلئے اپنے فہم و فراست پر مبنی انتخاب کو سراہتا ہے۔ یہ لاہور کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ متوسط اور درمیانے درجے کے لوگوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے اور ملکی تعمیر و ترقی کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔مقابلے کے اس دور میں آگے نکلنے کے لئے بہت محنت درکار ہوتی ہے میں نے اور میرے اساتذہ نے مل کر اس کالج کو آگے لے جانے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج یہاں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔ دیال سنگھ پبلک سیکٹر کے کالجز میں بڑا اور تاریخی کالج ہے یہاں تجربہ کار اساتذہ موجود ہیں باقی مشکلات تو آتی رہتی ہیں ان سے نبرد آزما ہونا ہی اصل جیت ہوتی ہے۔
تمام اساتذہ کرام اپنے فرائض منصبی انتہائی لگن ، محنت اور دیانتداری سے سرانجام دے رہے ہیں۔ کالج میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 12جبکہ ایم فل اساتذہ کی تعداد 35سے 40کے درمیان ہے وہ تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں پر گہری توجہ دیتے ہیں اور طلبا کی اخلاقی تربیت کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔
حکومت پنجاب نے دیال سنگھ کالج کو ماڈل کالج بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔شاندار تاریخی روایت کے حامل اس کالج میں داخلہ پانے والے طلباء و طالبات کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور ان کے اس دانشمندانہ انتخاب کو سراہا جاتا ہے۔ امید ہے کہ نووارد طلباء و طالبات محنت، باقاعدگی اور ڈسپلن کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کے اس سفر کو آگے بڑھائین گے اور کالج کی شہرت کو اوج ثریا تک پہنچائیں گے۔
اس ادارے کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات نے علم و ادب، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی کامیابیوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔اس ادارے کے اولڈ سٹوڈنٹس کے لئے میرا پیغام ہے کہ اس مادرِ علمی کا اُن پر کچھ قرض ہے ۔ اگر آج وہ کسی انتظامی عہدے پر فائز ہیں یا کاروبار کرتے ہیں ، تو اپنے ادارے کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں ۔
***

مزید :

ایڈیشن 2 -