فیصل ٹاؤن، 47سالہ فواد صدیق کو دوستوں نے پیسوں کے لالچ میں قتل کیا
لاہور (لیاقت کھرل) فیصل ٹاؤن کے علاقہ میں47سالہ فواد صدیق جگری دوستوں کے ہاتھوں موت کی بھینٹ چڑھا،ملزمان رات کی تاریکی میں گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر اندرگھسے، پہلے ہاتھ پاؤں باندھے اور فواد صدیق سے بلینک چیک پر زبردستی دستخط کروائے اور پھر کند آلہ سے سر پر پے در پے وار کر کے موت کی نیند سلا دیا۔ پولیس نے واقعہ کو ڈکیتی قتل کی بجائے اندھے قتل کا رنگ دے کر ورثا کو خاموش کروا دیا۔ ’’پاکستان‘‘ کی ٹیم نے فیصل ٹاؤن میں قتل ہونے والے47سالہ فواد صدیق کی ہلاکت کے اصل محرکات جاننے کے لئے تحقیقات کی تو اس بات کا انکشاف سامنے آیا کہ فواد صدیق پراپرٹی کا کام کرتا تھا اور اس کو جگری دوستوں نے موت کی بھینٹ چڑھایا، اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ مقتول فواد صدیق37ایم بلاک ماڈل ٹاؤن میں اکیلا رہتا تھا، مقتول کی اہلیہ نے تین سال قبل عدالت کے ذریعے خلع لے رکھا ہے اور مقتول کی ایک کمسن بیٹی ہے جو کہ والدہ کے پاس بیرون ملک مقیم ہے۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ مقتول ماڈل ٹاؤن پارک میں سیر کرتا تھا کہ اس دوران اُس کی عمر وقاص اور حسن امجد سے دوستی ہو گئی اور آپس میں جگری دوست بن جانے پر عمر وقاص اور حسن امجد کا اکثر مقتول کے گھر آنا جانا تھا۔ اس دوران مقتول فواد صدیق نے ایک مکان کو فروخت کے لئے20لاکھ روپے ٹوکن حاصل کیا کہ ملزمان حسن امجد اور عمر وقاص کو ذکر کیا اور اس پر ملزمان کی آنکھوں میں لالچ آ گیا کہ 6فروری کی رات کو فواد صدیق گھر میں سو رہا تھا کہ اچانک عمر وقاص اور حسن امجد ملنے کے بہانے گھر پر آ گئے۔ ملزمان نے پہلے فواد صدیق کے مُنہ پرہاتھ رکھ کر ہاتھ پاؤں اور مُنہ باندھا اور پھر بلینک چیک پر دستخط کروائے، مقتول دوستی کے واسطے ڈالتا رہا اور کہتا رہا کہ رقم لے لو لیکن اُس کی جان بخشی کر دو لیکن ملزمان کی آنکھوں میں خون اُتر چکا تھا اور ملزمان کو ذرا بھر بھی ترس نہ آیا اور بلینک چیک پر دستخط کروانے کے بعد فواد صدیق کے سر پر کند آلہ کے پے در پے وار کئے اور موت کی نیند سلا دیا اور جاتے ہوئے لاش کو بیڈ کے اندر چھپا کر فرار ہو گئے۔ قتل کی اندرونی کہانی کے مطابق وقوعہ کے چھ روز بعد مقتول کے بڑے بھائی زاہد صدیق نے کسی کام کے سلسلہ میں رابطہ کرنے کی کوشش کی تو فواد صدیق کا فون بند ملنے پر اُسے شبہ ظاہر ہوا اور گھر پر آ کر دیکھا تو فواد صدیق کی نعش خون میں لت پت اور سر پر کند آلہ سے اُسے موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا اور نعش کو بیڈ کے اندر رضائیوں میں چھپا کر رکھا گیا تھا جس پر اُس نے پولیس کو اطلاع دی تو ماڈل ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن پولیس حدود کے تعین پر آپس میں لڑتی رہی اور وقوعہ کو ڈکیتی قتل کی بجائے اندھے قتل کا رنگ دے دیا۔ ورثاء کے احتجاج پر پولیس بیان بدلتی رہی جس میں پہلے ڈکیتی، قتل اور بعد میں ملزمان کی جانب سے چیک بُک سے بلینک چیک چوری کرنے کا کہہ کر اندھے قتل کا رنگ دے دیا اور ورثا کے احتجاج پر ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا۔ مقتول کے بھائی اور مقدمہ مدعی زاہد صدیق نے ’’پاکستان‘‘ کو بتایا کہ پولیس نے پہلے مقتول سے زبردستی چیک حاصل کرنے کا ذکر کیا۔ بعد میں اندھا قتل بنا دیا، پولیس بار بار اپنا بیان بدل رہی ہے، مقتول کے فون سے آخری کال پر ملزمان ٹریس ہوئے ہیں جو کہ مقتول کے جگری دوست تھے جبکہ تفتیشی افسر غلام علی نے بتایا کہ واقعہ ڈکیتی قتل نہیں، اندھا قتل ہے، ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ملزمان نے رقم کے لالچ میں قتل کیا۔ جس میں ملزمان نے مقتول سے بلینک چیک پر دستخط کروائے اور دس لاکھ روپے بینک سے نکلوائے جس میں سے رقم کی ریکوری کی جا رہی ہے۔ تاہم اصل حقائق سامنے لانے کے لئے مزید تفتیش جاری ہے۔