پاک افغان کشیدگی کا نیا خطرناک موڑ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی میں پاک فوج نے پہلی مرتبہ سخت ایکشن لیتے ہوئے بھاری توپ خانہ سے افغان علاقہ میں بمباری کی ہے ۔ طور خم اور چمن کے بارڈر بند کر دیئے گئے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں میں پاک افغان بارڈر پر ہونے والی یہ سب سے بڑی کارروائی ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2250 کلو میٹر لمبا سرحدی علاقہ ہے جس کی لمبائی گلگت ، بلستان سے لے کر بلوچستان ، اور خیبر پختونخوا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں پہلے دن سے حالات کشیدہ ہی رہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ ڈیورنڈ لائن کو ہی قرار دیا جاتا تھا۔
پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی 1949 ء میں پہلی مرتبہ پیدا ہوئی تھی جو برطانوی مداخلت اور اس بانڈری لائن کو حقیقی بارڈر قرار دینے پر 1950 ء میں ختم ہو گئی تھی۔ اگرچہ 70ء کی دہائی کی شروعات بھی آسان نہ تھیں لیکن افغانستان پر روسی قبضہ اور پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد نے ساری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کا بوجھ 1975ء سے برداشت کرنا شروع کیا جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ پاکستان نے افغان عوام کے لیے بہت قربانی دی جبکہ پاکستان کے اندرونی حالات اور خارجہ تعلقات بھی بہت بُری طرح متاثر ہوئے۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی، سمگلنگ، نشہ ، اور ہتھیاروں کی فروخت عروج پر پہنچ گئی۔ پاکستان نے اس عفریت سے نجات کیلئے کئی اقدامات کئے ، الزامات کی بوچھاڑ بھی برداشت کی۔ لیکن اس کا موثر حل نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں تسلسل سے دھماکوں نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر پاکستان اس مہمان نوازی کی سزا کب تک برداشت کرے گا۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت کے بعد اگرچہ پاکستان نے بہت تیزی سے ایکشن کیا لیکن حالیہ دہشت گردی نے ایک خوفناک احساس یہ بھی پیدا کیا ہے کہ ایسے عوامل ہمارے اردگرد ہی بیٹھے ہیں جو کبھی متحرک ہو جاتے ہیں اور کبھی ہماری ہی صفوں میں چُھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
اس صورتحال میں ایک خودکش بمبار پاکستان میں آسانی سے داخل ہو جاتا ہے کیونکہ اُس کے ساتھی یہاں اپنا بیس بنائے ہوئے ہیں۔ افغانستان سے پاکستان دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے تو افغانستان بھی پاکستان سے ایسا ہی مطالبہ کرتا ہے ۔ پاکستان اس مسئلہ کا حل چاہتا ہے جس میں چین اور روس مثبت کردار ادا کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف امریکہ اور انڈیا افغانستان میں بیٹھ کر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان کو ملک کے اندر ایسے عناصر پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ساری گیم کے تانے بانے انڈیا سے جا ملتے ہیں۔ پاکستان کے نئے آرمی چیف بھی اس نئی صورتحال سے نڈر طریقے سے نمٹ رہے ہیں۔ افغان فوج بھی سرحدوں پر آن پہنچی ہے اور دونوں اطراف نے سرحدی علاقے خالی بھی کروا لیے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ گئی ہے۔ اس وقت کسی بھی افغانی کو بارڈر کراس کرتے ہوئے فوری ہلاک کرنے کے آردڑ پہلے ہی آرمی چیف دے چکے ہیں۔
پاک اور افغانستان کے درمیان کشیدگی آئیندہ چند دنوں تک کم ہو جائے گی اور سرحدی علاقہ بھی کھل ہی جائے گا لیکن پاکستان کو افغان پالیسی میں بہت بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان اس نیٹ ورک کو توڑنے میں کامیاب ہو چکا ہے لیکن اس کی اصل ڈور جو انڈیا میں بندھی ہوئی ہے اُسے کاٹنے کی ضرورت ہے ۔ انڈیا اور امریکہ کے لیے پاکستان میں رونقیں بحال ہونے کا مطلب کچھ اچھا نہیں کیونکہ اس سے چین ایران، روس اور افغانستان پاکستان کے قریب آجائیں گے جو یقیناًپہلے سے کنگال امریکہ اور ناکام انڈیا کے لیے اچھی خبر نہ ہو گی ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔