ایران اور ترکی کے درمیان ایسا کام ہو گیا کہ مسلم دنیا کیلئے انتہائی سنگین خطرہ پیدا ہو گیا ، بے حد تشویشناک خبر آگئی
انقرہ (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی امت مسلمہ کے اتحاد کی راہ میں پہلے ہی بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی تھی مگر اب ایران اور ترکی کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی تلخی نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
ڈیفنس دھماکادہشت گردی کا واقعہ ہے یا سلنڈرپھٹنے کا ، ابھی واضح نہیں ہوا: رانا ثناءاللہ
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے سفارتکاروں کے درمیان لفظوں کی جنگ ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ممالک خطے میں اثرورسوخ کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ترک صدارتی ترجمان ابراہیم کالن نے ہفتہ وار نیوز کانفرنس کے دوران کہا ” ایران ہمارے لیے اہم ہمسایہ ہے۔ ہم ہمیشہ ایران کے ساتھ بات چیت کرتے رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم خطے میں مداخلت کی ایران کی کوششوں کو نظر انداز کریں گے۔ “ وہ علی اکبر ولایتی کی ایک حالیہ بیان پر رد عمل دے رہے تھے، جو کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے اہم مشیر سمجھے جاتے ہیں۔ ایرانی رہنما نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ”ترک فوج کو عراق اور شام سے نکل جانا چاہیے ورنہ لوگ انہیں نکال دیں گے۔“
ادارے گلوبل سورس پارٹنر سے تعلق رکھنے والے سیاسی مشیر عتیلہ ییسی لاداکا کہنا تھا ” یہ بہت سنجیدہ بات ہے۔ میری مراد ایران اور ترکی کے درمیان مقابلے سے ہے ، ہر کوئی اس بات سے آگاہ ہے ۔ یہ ایک چھوٹے کمرے میں دو ہاتھیوں کی لڑائی جیسا ہے۔ ایران واضح طور پر ایک توسیع پسندملک ہے جو تہران سے لے کر لبنان تک اپنے اثرورسوخ کا دائرہ قائم کرنا چاہتا ہے ، کم از کم ترک نقطہ نظر سے ایسا ہی ہے۔“
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے پیچھے فرقہ واریت بھی کارفرما ہے۔ ترک رہنما اس سے پہلے بھی ایران پر فرقہ وارانہ سیاست کے الزامات لگا چکے ہیں، البتہ ایران کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میںترک صدر کی جانب سے حزبُ اللہ، جسے ایرانی حمایت یافتہ تنظیم قرار دیا جاتا ہے ، کو بھی دہشت گر دتنظیم قرار دے چکے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان تلخی بڑ ھ کر ایک علاقائی تنازع کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ ترک صدر کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں دورے کو بھی ان کی جانب سے ایران کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان حالات مزید خراب ہونے کی صور ت میں نہ صرف خطے کا امن متاثر ہو گا بلکہ اس کے بدترین اقتصادی نتائج بھی سامنے آسکے ہیں۔