محاذ آرائی روک لیں!

محاذ آرائی روک لیں!
محاذ آرائی روک لیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واقعات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور الیکٹرونک میڈیا والے بھائیوں کو زیادہ تردد کی ضرورت نہیں ہوتی اور ہر روز ان کے سامنے ایک نیا مسئلہ آ جاتا ہے اور پھر چینل معروف، اینکر اور تجزیہ کار حضرات زور لگا لگا کر اظہار خیال کر رہے ہوتے ہیں، بات عدلیہ اور پارلیمنٹ کی چل رہی تھی اور حکمران جماعت نے میڈیا کی مشکل آسان کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں بات شروع کرا دی تھی، اس پر تحفظات کا اظہار ہوا، حتیٰ کہ ایس ایم ظفر جیسے دھیمے اور سنجیدہ شخص نے پارلیمنٹ کے سینئر اور سنجیدہ حضرات سے اپیل کی کہ وہ اس صورت حال کو سنبھالیں کہ اس سے ملک کو بھی نقصان ہوگا، ایسا نہ ہو سکا اور اب ایک اور فیصلہ ہو گیا، اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ محاذ آرائی مزید بڑھے گی۔

سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کا موقف ہے کہ ان کے خلاف انتقامی طور پر کارروائی اور سازش ہو رہی ہے، وہ جب تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو عام آدمی کو بھی سمجھ آتی ہے کہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں، تاہم وہ اس بیانئے کہ اسی طرح رکھ کر مقاصد حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کی حکمت عملی میں یہی بہتر ہے۔

انہوں نے چودھری نثار اور راوی کے مطابق اپنے وفادار بھائی محمد شہبازشریف کی بھی بات نہیں مانی، البتہ خود ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کی کچن ارکان دانیال عزیز، طلال چودھری، پرویز رشید اور عابد شیر علی جیسے حضرات ’’مردانہ وار‘‘ ساتھ چل رہے ہیں۔


جہاں تک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا تعلق ہے تو بجا طور پر انہوں نے اپنے قائد کا ساتھ دیا اور معاملے کو پارلیمنٹ میں لے گئے۔جذباتی طور پر اور ان کے مشیروں (جو وکیل بھی ہیں) کی طرف سے شاید یہی مشورہ دیا گیا ہو، لیکن یہ اور بات، آئین اور قواعد و ضوابط کار اسمبلی کو نظر انداز کیا گیا۔


ہم نے طویل عرصہ پارلیمانی رپورٹنگ کی۔ ہم ان رپورٹروں میں سے ہیں جو اسمبلی میں سنجیدہ موضوعات پر بحث میں دلچسپی لیتے اور اس کو رپورٹ کیا کرتے تھے، چنانچہ اسمبلی میں حاجی سیف اللہ، تابش الوری، مخدوم زادہ حسن محمود، رانا اکرام ربانی اور ایسے بہت سے حضرات کے قانونی نکات کو غور سے سنتے اور رپورٹ کرتے تھے، سردار بہادر اور خواجہ صفدر بھی ایسے ہی حضرات میں شامل ہیں۔ ان سے پہلے میاں ممتاز دولتانہ اور نواب افتخار حسین ممدوٹ بھی انہی اسمبلیوں میں بولتے رہے۔ میاں محمود علی قصوری، مولانا شاہ احمد نورانی اور ولی خان بھی تھے جبکہ پنجاب اسمبلی میں تو مرحوم چاچا پھول محمد خان بھی قواعد و ضوابط پر خوبصورت بحث کر لیتے تھے۔


قومی اسمبلی اور سینٹ تو اپنی جگہ یہاں پنجاب اسمبلی میں سپیکر رفیق احمد شیخ، چودھری انور بھنڈر، چودھری پرویز الٰہی اور منظور وٹو سمیت متعدد سپیکر حضرات کی رولنگ کارروائی میں محفوظ ہیں، ان میں آئین کے آرٹیکل 68کی روح کے مطابق قرار دیا گیا کہ عدلیہ اور جج حضرات کے کنڈکٹ (عمل) پر ایوان میں بحث نہیں ہو سکتی۔ ایسا ہی تحٰظ افواج پاکستان کو بھی حاصل ہے۔

حتیٰ کہ اکثر ایسا بھی ہوا کہ بعض اوقات کسی فاضل رکن نے کسی ایسی شخصیت کے بارے میں نازیبا بات کی جو ایوان میں نہیں تھی تو بھی فاضل رکن کو ٹوکا گیا کہ جو شخصیت ایوان میں نہیں یا ایوان کا حصہ نہیں اس کے بارے میں بات نہ کریں، لیکن یہاں کھلے بندوں عدلیہ کے بارے میں تحفظات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا گیا اور توقع کی گئی کہ ایوان میں موجود حزب اختلاف والے بھی تعاون کریں گے۔

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ توقعات پر پورا تو اترے لیکن انہوں نے بھی اگر مگر کرکے تعاون کا یقین دلایا، ان کی اگر اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی تائید والی تھی، چنانچہ صورت حال محاذ آرائی میں کمی نہیں، اضافے کا باعث ہی بنی۔

یہاں ہم خود اپنی ذاتی رائے اور اندازے کا ذکر کرتے ہیں، شاید یہ سب کچھ جلدی میں ہو رہا ہے کہ سابق وزیراعظم ایسے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ان کو نااہل قرار دینے کے بعد سزا دینے کی تیاری ہے، حتیٰ کہ وزیراعظم نے یہ تک کہا کہ نوازشریف جیل سے نہیں گھبراتے ، اب اگر معروضی حالات اور زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی عدلیہ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی کی تائید نہیں کرے گی۔ تحریک انصاف تو دوبدو ہے۔

ایسے میں اگر پارلیمنٹ کو استعمال کرکے عدلیہ کے حوالے سے کسی ترمیم کی کوشش ہو تو اسے سینیٹ میں ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ افواہ ساز فیکٹری کا یہ مواد باہر آ چکا ہے کہ حکمران جماعت جج حضرات کی مدت 65 سال سے کم کرکے ساٹھ سال عمر کرنا چاہتی ہے اور یوں ان تمام فاضل جج حضرات سے بنچ خالی ہو جائے گی جو بقول ان کے سخت گیر اور مخالفانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں، لیکن پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، حتیٰ کہ حلیف اپوزیشن کی طرف سے پورا پورا خطرہ موجود ہے کہ یہ سب ساتھ نہیں دیں گے۔ ان حالات میں بہتر یہ تھا کہ آپ اگر آئین کے حوالے سے دوسروں کے رویے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں تو پھر خود ایسا کوئی عمل نہ کریں جس کے حوالے سے آپ پر بھی یہی الزام عائد کیا جائے۔


یہ تو ملک کے اندر کی صورت حال ہے اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کی بات کی جاتی ہے۔ شائد انہی حالات کا ایک پر تو یہ بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ برطانیہ بھی شامل ہو گیا اور پاکستان کو دہشت گرد ملک والی واچ لسٹ میں رکھنے کی تحریک پیش کر دی۔

پیرس میں اچھے دوستوں کی وجہ سے فوری خطرہ تو ٹل گیا، لیکن تین ماہ کے لئے مسئلہ موخر ہوا ہے، ختم نہیں ہوا، اسی لئے سیانے کہہ رہے ہیں کہ اس مدت سے فائدہ اٹھایا جائے اور لابنگ کرکے اس تحریک کو مستقل ناکام بنانے کی کوشش کی جائے، اگر ملک کے اندر یہی کچھ رہا تو انتخابی ماحول کی وجہ سے حالات مختلف ہوں گے۔

اس کے علاوہ عوام کو درپیش مہنگائی، بے روزگاری، صحت اور تعلیم جیسے مسائل بھی نظر انداز ہوتے رہیں گے۔ معاشرے میں جماعتی اور نظریاتی تقسیم بھی صحت مند نشانی نہیں یہ سب ایک وسیع تر اور بڑے پیمانے پر اتفاق رائے کی ضرورت کا احساس دلاتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -