چمن میں تلخ نوائی مری گواراکر

چمن میں تلخ نوائی مری گواراکر
چمن میں تلخ نوائی مری گواراکر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک عرصے سے پاکستان کی داخلی سیاسیات پر لکھ کر وقت ضائع کرنے کی کڑوی گولی نگلنے کی کوشش کررہا ہوں جو حلق میں اٹک کر رہ گئی ہے۔ کبھی کبھار اُسے اُگلنے کی ادھوری کوشش کرتا ہوں تو شرمندگی سی ہوتی ہے کہ پاسِ عہد کیوں نہیں نبھا سکا۔ آج کا یہ یومِ کاوش بھی انہی ایام میں سے سمجھئے۔


پاکستان میں جو حالات ایک طویل عرصے سے چل رہے ہیں، ان سے بچہ بچہ واقف ہے۔ سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ کہ نواز شریف پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل ہیں، صورتِ حالات کو مزید گھمبیر بناگیا ہے۔ ایک سوچ ذہن میں آتی ہے کہ ہم شائد خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن خانہ جنگی کی طرف پیش قدمی کی وجوہات تو ایک لمبی مدت سے نوشتۂ دیوار ہیں۔

کوئی اور ایسا ملک ہوتا جہاں آزاد منش انسانوں کا بسیرا ہوتا تو ’’کٹی کٹا‘‘ کبھی کا نکل چکا ہوتا ، لیکن ہماری تو رگوں ہی میں غلام ابنِ غلام کا خون گردش کررہا ہے۔ عروسِ آزادی پر جان دینے والے دولہا میاں اور ہوتے ہیں۔

حضرتِ اقبال نے غلامی کے خلاف جو جہاد کیا اور خودی کو جو نئے معانی پہنائے وہ ہم سب جانتے ہیں، لیکن ایم ڈی تاثیر (سلمان تاثیر سابق گورنر پنجاب کے والد) نے اپنے مضامین میں ’’اقبال کے آخری ایام‘‘ کے عنوان سے ایک جگہ لکھا تھا کہ اقبال اپنی عمر کے آخری ماہ و سال میں مسلمانانِ برصغیر سے کچھ زیادہ پُرامید نہیں تھے۔ اِسی عالمِ مایوسی میں ان کے قلم سے یہ شعر بھی نکلا تھا:


کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر؟
اقبال کی وفات کے نو سال بعد برصغیر تقسیم ہوا تو کیا کسی مسلمان نے کسی ایک انگریز کو بھی تہہ تیغ کیا؟ ہم سے تو وہ 1857ء والے مسلمان ہی بہتر تھے، جنہوں نے ایک صدی پہلے غاصب آقاؤں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا، لیکن 90 سال بعد 1947ء میں ہم پھر خوئے غلامی کے اسیر ہوگئے تھے۔

پنجاب میں جو قتل و غارتگری ہوئی اس کی منصوبہ بندی برسوں پہلے سکھوں اور ہندوؤں نے کررکھی تھی۔ یہاں پاکستان میں جوکچھ ہوا اورجو سکھ وغیرہ مارے گئے، وہ مشرقی پنجاب کے قتل عام کا ایک چھوٹا سا جواب تھا جس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، صرف اضطراری کیفیت تھی اور بس!


برصغیر کے لوگ نہتے ہوں تو بہت شیردلیر بنتے ہیں، لیکن اگر کوئی مسلح شخص ذرا سا ہوائی فائر کردے تو گیدڑوں کی طرح بھاگ اٹھتے ہیں اور شیری دلیری یکدم کافور ہوجاتی ہے۔ 1947ء کے بعد بارہا ایسا ہوا کہ عوام اپنی آزادی کے حصول کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرسکتے تھے، لیکن۔۔۔ جزقیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار۔۔۔ قیس بیچارہ تو خود اپنے لباس میں ننگِ وجود تھا، وہ کیا مقابلہ کرتا؟۔۔۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے لئے ایک نحیف و نزار اور قریب المرگ ’’بڈھا شیر‘‘ ہی کافی ہوتا ہے۔ کیا آپ نے دیکھا نہیں ہم لوگ دن رات میڈیا پر بیٹھ کر گلا پھاڑ رہے ہوتے ہیں۔

کسی سیاستدان کی پکار پر سڑکوں پر ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں، مسجدوں میں جائیں تو واعظانِ بلند بانگ ہاتھوں کو لہرا لہرا کر درسِ جہاد دیتے نظر آتے ہیں، لیکن مسجد کی چار دیواری کے باہر اگر کوئی ایک ہوائی فائر ہو جائے، کوئی خودکش دھماکہ ہو جائے تو سارا مجمع ایک پل میں تتر بتر ہو جاتا ہے۔

کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ اس خود کش کے سہولت کار کو پکڑے جو اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اور اسے ’’منزلِ مقصود‘‘ تک پہنچانے پر مامور ہوتا ہے۔


ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے اور ہم بانسریاں بجارہے ہیں۔ کسی غیبی امداد کے منتظر ہیں۔ کسی اَن دیکھے معجزے کا انتظار کررہے ہیں اور کسی انجانی قیامت کے وقوع کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ مولانا روم نے صدیوں پہلے کہہ رکھا ہے کہ ’’قیامت کا انتظار نہ کرو۔۔۔ بلکہ خود قیامت بن جاؤ کہ قیامت دیکھنے کی شرط یہی ہے‘‘:

پس قیامت شو، قیامت را بہ بیس
دیدنِ ہر چیز را شرط است ایں
ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوچۂ سیاست میں انہونیاں ہورہی ہیں، لیکن ان کا جواب جو انہونی ہونی چاہئے وہ کہیں نظر نہیں آتی، اس کا صرف انتظار کیا جارہا ہے۔ ہم ساحل پر کھڑے کھڑے شور مچارہے ہیں کہ دیکھو پاکستان کی کشتی ڈوب رہی ہے، اسے بچا لو۔ لیکن کوئی بندۂ خدا دریا میں چھلانگ نہیں لگاتا۔ ایسا کرنے کے لئے تو: ’’چیتے کا جگر چاہیے، شاہیں کا تجسس‘‘۔۔۔ اے کاش ہم میں ایسا جگر ہوتا! کافروں کے دیس میں ایسے جگر ’’عام‘‘ پائے جاتے ہیں۔

یہ ہمیں بدنصیب قوم ہیں جو گفتار کے غازی تو ہیں، کردار کا غازی بننا ہمارے نصیب میں نہیں۔ اس کے لئے انسان کی پوری کیمسٹری کو تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ جب تک وہ نہیں ہوگی۔ ہم ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔میں جب زمانہ ء طالب علمی میں اقبال کو پڑھا کرتا تھا تو کئی سوال ذہن میں آتے تھے جن کا کوئی جواب اس وقت نہیں سوجھتا تھا۔ مثلاً ان کا یہ قطعہ:


اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
اگر لہو ہے بدن میں دل ہے بے وسواس
ملا جسے یہ متاعِ گراں بہا اس کو
نہ سیم و زر سے محبت ہے نے غمِ افلاس

میں سوچا کرتا تھا کہ اقبال کس کے خوف کی بات کرتے ہیں؟۔۔۔ یہ خون تو میری رگوں میں بھی ہے، میرے بدن میں بھی دوڑ رہا ہے، لیکن کیا مجھ میں خوف اور ہراس نہیں ہے؟۔۔۔ جواب ملتا تھا: ’’بالکل ہے‘‘۔۔۔اسی طرح کے اور بہت سے اشعار تھے جن کا مفہوم زمانہ ء طالب علمی میں نہیں ملتا تھا۔

دراصل کوئی بتانے والا بھی تو نہیں تھا کہ ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں میں کیا فرق ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح کئی اور اشعار بھی تھے جو مجھے بہت پسند تھے، لیکن ان کے لغوی مفہوم کے علاوہ ان کا مرادی طائرِ مفہوم دماغ کے کسی گوشہ ء تفہیم کے آس پاس پھڑ پھڑاتا رہتا تھا۔ ایک دو شعر اور سنئے:
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
تا بہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے

سوئے گردوں نالہ ء شبیگر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے
اس وقت شائد ذہنی عدم بلوغت کا سبب تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ انسان کے خاکی جسم میں وہ ’’جاں‘‘ کیونکر پیدا ہوتی ہے جس کا ذکر اقبال کر رہے ہیں۔۔۔ اگر یہ زمین و آسمان جلا کر خاک کر دوں تو کیا میری یہ چنگاری جس سے دنیا کو راکھ کر دوں گا، پھر سے ایک نئی دنیا پیدا کر دے گی؟

۔۔۔ آسمان کی طرف آہ و فغاں کا سفیر بھیجنا اور رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرنا تو بالکل سمجھ نہیں آیا کرتا تھا۔۔۔ لیکن قارئین محترم! آج یہ سب کچھ سمجھ آ رہا ہے۔ آج اس صداقت کا مفہوم بھی احاطہ ء فکر میں سما رہا ہے جس سے انسان کے خاکی جسم میں ’’جاں‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ اس ’’جاں‘‘ کا تو سارا رونا ہے۔ پاکستان کے 20کروڑ شہریوں میں کتنے لوگ ہیں جن کے سینوں میں صداقت ہے اور جو اس صداقت کے لئے کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ آج یہ دیکھ دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ میرے چاروں طرف شہر شہر اور قریہ قریہ ’’سیاستدان‘‘ (Politicians) پھیلے پڑے ہیں، لیکن مدّبر (Statesman) ایک بھی نہیں۔

ہر سیاستدان دعوے کر رہا ہے کہ ہم سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ دھمکیاں دے رہا ہے کہ پھر نہ کہنا کہ سڑکیں بند ہو گئیں اور ٹریفک جام ہو گئی، لیکن یہ Politicians یہ نہیں سوچتے کہ کیا پاکستان کا مسلہ سڑکیں بند کرنے یا ٹریفک جام کرنے سے حل ہو جائے گا؟۔۔۔ ایک دوسرے کو مطعون کرنا، دشنام طرازیاں کرنا، طعن و تشنیع کے بازار گرم کرنا ہماری ’’فتوحات‘‘ میں شامل ہیں۔

اسی عالم میں 70 برس گزر گئے۔ پوری قوم صبح و شام ایک عجیب قسم کے بخار اور عجیب تر قسم کے آزار میں مبتلا ہے۔ کسی کے پاس نہ کوئی آئندہ کا لائحہ عمل ہے ، نہ کسی شارٹ ٹرم یا لانگ ٹرم ملکی تعمیر و ترقی کے خدوخال ہیں، نہ کسی پلاننگ کی تفاصیل ہیں اور نہ ان سبز باغوں کے اشجارو اثمار کے خاکے ہیں جو ہم کو ہر روز دکھائے جاتے ہیں۔۔۔


یہ چند حروف جو آج قلم سے نکل رہے ہیں۔ اگرچہ ’’لاتقنطو‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں، لیکن چونکہ آج دل میں درد سوا ہو رہا تھا اس لئے اس تلخ نوائی کو گوارا کیجئے!

مزید :

رائے -کالم -