فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر367

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر367
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر367

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وکٹوریا کا کوچوان ایک لمبا سا کوڑا لے کر بیٹھتا ہے۔ کبھی ہم نے یہ کوڑا گھوڑے کو مارنے کے لیے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ شاید یہ ڈیکوریشن کا حصّہ ہے یا وکٹوریا کے لوازمات میں شامل ہے۔ کوچوان کی گفتگو بھی بہت مزے دار تھی۔ کراچی کے بارے میں ساری معلومات انہیں حفظِ زبان تھیں۔ کئی کوچوان کافی ادب ذوق نظر آئے۔ انہیں شعر و شاعری سے خاصی رغبت تھی۔ ایک درمیانہ عمر کوچوان کو داغ کا سارا دیوان حفظ تھا۔ ہم نے اس کے ساتھ اپنے سفر کو مزید طویل کردیا۔ اس اللہ کے بندے نے داغ دہلوی کے اشعار تحت اللّفظ میں سنائے تو ہم دونوں بھول گئے کہ ہمیں جانا کہاں ہے۔ بس وہ سڑکوں پر چکّر لگاتا رہا اور شعر سناتا رہا۔ بار بار کہتا تھا ’’میاں۔ داغ کی کیا بات ہے۔ اُس جیسا شاعر تو پھر دلّی میں بھی پیدا نہیں ہوا‘ کراچی میں کیا پیدا ہو گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’بھائی۔ آپ کیوں کوشش نہیں کرتے؟‘‘
بولے ’’میاں کیوں مذاق کرو ہو۔ ہم شاعری جوگے کہاں رہے؟‘‘
’’تو پھر کس جوگے رہ گئے ہو؟‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر366 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
 کہنے لگے ’’بس فٹن ہانکتے جوگے رہ گئے ہیں سو ہانک رہے ہیں۔ زندگی کی گاڑی ہانکنا ان دنوں بڑا مشکل ہووے ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے ہے۔‘‘
وہ سستا زمانہ تھا۔ ہم نے آدھے سے زیادہ دیوانِ غالب بھی سنا۔ سیر کی سو الگ‘ کرایہ ایک روپے چار آنے دیا تو وہ خوش ہو گئے۔ آج کی مہنگائی کے زمانے میں خدا جانے ان کا کیا حال ہو گا اور وہ زندگی کی گاڑی کیسے ہانک رہے ہوں گے۔
وکٹوریا اب کراچی میں بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں بلکہ ناپید ہوچکے ہیں۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں ان چیزوں کا بھلا کیا کام۔ البتہ نمائش اور تفریح کی اور بات ہے۔
تیز رفتاری سے یاد آیا کہ اس زمانے میں کراچی میں ٹرام بھی چلتی تھی۔ ٹن ٹن گھنٹی بجاتی ہوئی سڑک پر سے گزرتی تو ہم جیسے شہر میں نووارد تو چوکنّا ہو کر دیکھنے لگتے تھے۔ سڑک کے درمیان میں ٹرام کی پتلی سی پٹری ہوتی تھی جس پر دوسرا ٹریفک مداخلت کرنے سے گریز کرتا تھا۔ ٹرام کافی سست رفتاری سے چلتی تھی۔ اوپر چھت آس پاس سے کھلی ہوئی۔ درمیان میں لکڑی کی سیٹیں۔ ٹرام کے پچھلے حصّے میں کھڑے ہونے کے لیے کُھلی جگہ ہوتی تھی۔ ہمیں وہ جگہ سب سے زیادہ پسند آئی۔ چلتی ٹرام میں سوار ہونا اور اس پر سے اُترنا کوئی مشکل کام نہ تھا کیونکہ وہ بہت سُست رفتار سے چلتی تھی۔ اسے پکڑنے کے لیے بھاگنا بھی ضروری نہ تھا۔ بس ذرا تیز قدمی سے چل کر ٹرام پر چڑھ جائیے۔ پچھلے حصّے میں کھڑے ہوکر آس پاس کا نظارہ کیجئے۔ یار لوگ سڑک چلتے اور باتیں کرتے کرتے بڑے آرام اور اطمینان سے ٹرام میں سوار ہو جاتے تھے۔ اُترتے وقت بھی کسی تکلّف یا اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ بس پہلے ایک پیر لٹکائیں‘ پھر جیسے ہی ٹرام کی رفتار ہلکی ہو آہستہ سے سڑک پر کود جائیں۔
ٹرام بہت غریب پرور سواری تھی۔ غالباً کراچی کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک سفر کرنے کا کرایہ ایک یا ڈیڑھ آنہ تھا۔ ٹریفک میں بہتری پیدا کرنے کے نام پر یہ بند کردی گئی۔ حالانکہ چلتی رہتی تو بہتوں کا بھلا ہوتا۔ دنیا کے بہت سے ترّقی یافتہ ملکوں میں آج بھی ٹرام چلتی ہے مگر ہمارے بااختیار لوگوں کو شاید عام لوگوں کی سواری اور سہولت اچھّی نہیں لگتی۔ ٹرام کراچی میں آمدورفت کا بہت اچھّا اور سستا ذریعہ تھی۔ رش کے اوقات میں تو ذرا بھیڑ بھاڑ ہوتی تھی‘ اس کے علاوہ ہر وقت بڑے آرام سے سفر اور فاصلہ طے ہو جاتا تھا اور جیب پر بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا۔ کراچی غریب پرور شہر تھا اور کافی عرصے تک ایسا ہی رہا۔ 60ء کی دَہائی میں ہم نے بہت بڑے بڑے نہایت لطیف چِتلی والے کیلے وکٹوریا روڈ پر بارہ آنے درجن خریدے۔ ان سے دوبار پیٹ بھرا جا سکتا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہم فلم ساز شوکت شیخ کے ہمراہ کراچی گئے۔ وہ اپنی زیرتکمیل فلم ’’گیسٹ ہاؤس‘‘ کا تنازعہ نمٹانے کے سلسلے میں کراچی گئے تھے اور ہم دونوں ریکس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے تقسیم کار نے قسط ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر یہ قسط جاری نہ ہوئی تو شوکت شیخ ہمیں لے کر کراچی پہنچ گئے۔ ہم ان کے دوست بھی تھے اور کہانی کے مصنّف بھی۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم الیاس رشیدی صاحب سے کہہ کر دباؤ ڈالوا کر ان کا مسئلہ حل کرا دیں گے۔
ہم تو اس امید پر گئے تھے کہ جاتے ہی قسط وصول ہو جائے گی مگر وہاں معاملہ کچھ اور تھا۔ تین دن کے بعد شوکت شیخ کے پاس نقدی ختم ہو گئی۔ ہوٹل کا کرایہ تو ہوٹل چھوڑتے وقت ہی ادا کیا جاتا تھا اس لیے اس طرف سے اطمینان تھا۔ یہ ہوٹل بھی خاصا مہنگا تھا مگر ناشتا ہوٹل کے کرائے میں ہی شامل تھا جیسا کہ اس زمانے میں رواج تھا۔ ہم دونوں صبح اٹھ کر تیار ہو کر خوب پیٹ بھر کر ناشتا کرتے اور ہوٹل سے نکل جاتے۔ ’’نگار‘‘ کے دفتر کی حاضری تو معمول میں شامل تھی۔ دوسرے فلم سازوں اور دوستوں کے دفتروں کا بھی پھیرا لگ جاتا تھا۔ شوکت شیخ کے تقسیم کار کی طرف سے وعدہ فردا پر ہی ٹرخایا جا رہا تھا۔ ہم نے شروع دنوں میں کُھلے دل سے خرچ کیے تھے۔ مہنگے اور اچھّے ریستورانوں میں کھانے کھائے اور دوستوں کو بھی کھلائے۔ فلمیں دیکھیں‘ تھوڑی سی شاپنگ بھی کر ڈالی۔ جب پیسے ختم ہونے لگے تو پریشانی ہونے لگی۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر368 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں