غنڈہ گردی
پیپلز پارٹی والے کس کو سنا رہے ہیں ؟ ان سے پہلے مسلم لیگ(ن)والے کن کو سنا رہے تھے؟۔۔۔عوام کو؟۔۔۔انٹرنیشنل کمیونٹی کو؟۔۔۔یا کسی اور کو!
نیب جو کچھ کر رہی ہے اس کا مقصد اگر ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہے تو اس غنڈہ گردی سے اور کچھ تو ہو تو کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ ملک بھر کے اداروں میں بیٹھے ہوئے کرپٹ افسران اور اہلکار خوش ہوں گے کہ سارا نزلہ سیاستدانوں پر گر رہا ہے ، ان کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سرکاری دفتروں میں اسی طرح فائلوں کوپہئے لگائے جا رہے ہیں، عدالتوں میں ریڈروں کی مٹھیاں گرم کی جا رہی ہیں اور پٹواریوں کو کھلی آفریں ہو رہی ہیں ۔ نیب کرپشن کے خلاف نہیں ، کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف سرگرم ہے۔ وہ اس ملک کی سیاست کو کرپشن فری کرنا چاہتی ہے، حالانکہ کئی کامران کیانی ہر جگہ سرگرم عمل ہیں۔
ادھر بینک آف پنجاب میں ایک بینکر بتار ہے تھے کہ سابق وزیراعلیٰ جو کام چوبیس گھنٹے میں کروالیتے تھے ، موجودہ پنجاب حکومت ایک ایک ماہ تک وہ کام پنجاب بینک سے نہیں کرواسکتی ہے ، حالانکہ پنجاب بینک حکومت پنجاب کا اپنا بینک ہے۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پہلے جو راشی افسر براہ راست رشوت پکڑتے تھے ، اب انہوں نے اس کام کے لئے اپنے سے دور بندے بٹھادیئے ہیں، مگر پیسے ضرور لے رہے ہیں۔ پنجاب بینک کے یہ بینکر پی ٹی آئی کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں ان کی پارٹی جو کچھ کر رہی ہے ، وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
کون کہہ سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیت کر آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے امیدواروں کی طرح سائیکل پر الیکشن جیت کر آئے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خالی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے انتخابی گوشواروں میں موجود املاک کی ہی چھان بین کیوں ہو رہی ہے ؟ کیا نواز شریف کے بچوں کی طرح وزیراعظم عمران خان کی آف شور کمپنی نہیں ہے ؟ کیا علیمہ خان نے جو روپیہ بیرون ملک بغیر ٹیکس ادا کئے منتقل کیا اس کی چھان پھٹک نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے ذرائع کیا تھے ؟ایسا لگتا ہے کہ عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ سیاست دان اِس قابل نہیں ہیں کہ انہیں زمام اقتدار دی جائے ۔ ایسا ہے تو پھر کس کو دی جائے ؟ ہم نے تو آمروں کو بھی دیکھ لیا ، اب تو ان سے بھی بھلائی کی توقع نہیں رہی ہے۔
میڈیا عمومی طور پر اپوزیشن کے ساتھ ہوتا ہے اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے، لیکن ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ میڈیا کے جغادری حکومت کی بجائے اپوزیشن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ ایسا صرف آمریت کے زمانے میں ہی ہوتا ہے جب پریس ایڈوائز کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح اپوزیشن لیڈروں کے گھر والوں کو کرپشن میں سہولت کار ثابت کیا جاتا ہے اس طرح محترمہ علیمہ خان کو کرپشن میں ایک مرتبہ بھی سہولت کار ثابت کرنے کا تردد نہیں کیا گیا ہے۔
شام کے وقت ٹی وی چینلوں کے سامنے بیٹھ جائیے تو اینکروں کی کارکردگی دیکھ کر جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ
جنھیں نقطے اٹھانے تھے وہ بے پیندے کے لوٹے ہیں
نیت ان کی کھوٹی ہے یا ان کے ذہن موٹے ہیں
حلف لے کر عدالت میں شہادت جیسے دیتے ہیں
جوابوں پر سوالوں کے سپارے ہم نے گھوٹے ہیں
بناتے ہیں ، مٹاتے ہیں ، خدا کو منہ چڑاتے ہیں
بظاہر سوچ پختہ ہے مگر وہ ذہن چھوٹے ہیں
وہی بک بک وہی جھک جھک وہی تو تو وہی میں میں
ہمارے ٹاک شو ہیں یا گھسی فلموں کے ٹوٹے ہیں
ہمارے ٹی وی اینکروں کو سمجھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے عوامی جذبات کو زبان نہ دی اور نیب کی آڑ میں ہونے والی غنڈہ گردی کے خلاف آواز بلند نہ کی تو ان کی رہی سہی ویوئر شپ بھی جاتی رہے گی اور ان کا حال بھی نوے کی دہائی میں چلنے والے ریڈیو جیسا ہوگا جو چوبیس گھنٹے چلتا تھا، مگر اس کو سننے والا کوئی نہ تھا۔ میڈیا کو اس غنڈہ گردی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔