مودی جی! اپنے بھارت کی تصویر دیکھیے۔۔۔
نریندر مودی صاحب! میں اپنی تیسری چٹھی لے کر حاضر ہوں۔ کیا کریں ہم پاکستانی وعدے کے ہیں بہت پکے۔ غصے سے آپ کے منہ سے جھاگ نکل رہے ہیں آپ خود پر قابو نہیں کر پارہے۔ آپ کا حال اس وقت نشے میں چُور کسی بدمست ہاتھی جیسا ہے جو مسلمانوں اور پاکستان دشمنی میں سب کچھ کچلنے سے بھی گریز نہیں کرے گا، لیکن کیا خوب کہا ہے شاعر نے
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتہ تو کروچناؤ ہے کیا؟
آپ کی متعصبانہ تقاریر اور اقدامات دہشت گردی کو جنم دینے والی انتہاپسندی کو فروغ دے سکتے ہیں، اس کے آگے بند نہیں باندھ سکتے۔ مودی جی آپ کی سرکار کو اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس سے بہتر حربہ کبھی نہیں سوجھا کہ وہ کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کرے یا پاکستان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کیا جائے اور اس طرح اپنا ووٹ بنک بڑھائے۔ آسان اور آزمودہ نسخے پر عمل کرتے ہوئے کسی حد تک آپ کی سرکار کامیاب بھی ہوئی ہے۔ آپ یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ حالات آپ کے قابو سے باہر ہوگئے ہیں? یہ تو وہی بات ہوئی کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔
مودی جی! دہلی میں بیٹھ کر آپ اور آپ کی کابینہ کے ارکان پاکستان پر گرجتے برستے رہتے ہیں، پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں لیکن اپنی ناک کے نیچے ہونے والی پلوامہ کے علاقے اوانتی پورہ میں بھیانک دہشت گردی کو روکنے سے قاصر ہیں۔ آپ کے فوجی قافلے پر حملہ کیا جاتا ہے تو فوجیوں کو لے جانے والی تین بسیں مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہیں۔ آپ کو یاد نہیں، چلیں ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں، جب حکومت آپ کے ہاتھ میں نہیں تھی تو آپ نے کانگریس کو للکار کر سوال کیا تھا کہ جب تم سرکار میں ہو اور پورے بھارت پر راج کرتے ہو تو کوئی آتنک وادی کیسے بھارت کی سیما پھلانگ کر آتنک کر کے چلا جاتا ہے اور تم کہتے ہو تمھیں علم ہی نہیں ہوا کہ کون آیا کیسے آیا؟ تو مودی سرکار آپ تو خود اب بھارت کے مکھی منتری ٹھیرے۔ آپ کیوں کر اس دہشت گردی کو نہ روک سکے جو کہ آپ کے اس علاقے میں ہوئی جسے آپ کے نزدیک فوجیوں کے لئے سب سے زیادہ سیکیورٹی پروف اور محفوظ سمجھا جاتا تھا؟ ہمیں افسوس ہے کہ خوفناک خود کش حملے میں 42 بھارتی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے لیکن چنا بو کر گندم کی توقع رکھنا آپ کی ہی بیوقوفی ہے۔ آپ نے جس طرح مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی انتہا کردی اس میں ایسے نتائج کا آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اور رہی جیش محمد جس نے حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے تو یہ تنظیم پہلے ہی پاکستان میں کالعدم قرار دی جاچکی ہے۔ دوسری طرف خودکش حملہ آور بھی آپ کے مقامی لوگوں میں سے ہی تھا۔ بارڈر پھلانگ کر کوئی آپ کے پاس نہیں آیا یعنی آپ اپنے اندر بیٹھے ہوئے آتنک وادیوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ یقین جانیے آپ کو خط لکھتے ہوئے اب تو ہمدردی سی ہو چلی ہے آپ کے ساتھ۔
مودی جی آپ کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کردیا جائے تو اس کے اب امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔سب سے پہلے چین ہی کو دیکھ لیجئے پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایا کاری کرنے کے بعد چین کبھی بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والوں کا ساتھ نہیں دے گا۔دوسری طرف امریکہ کو افغانستان میں اپنا راستہ برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کی ہمشہ ضرورت رہے گی۔روس سے بھی اب عسکری نوعیت کے تعلقات شروع ہوچکے ہیں۔سعودیہ عرب کو یمن کی جنگ اور اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات کو سنبھالنے کے لئے پاکستانی فوج کی ضرورت ہے۔رہا ایران تو یہ بات کھل کر طے کی جاچکی ہے کہ گورادر اور چار بہار کی بندرگاہ میں کوئی مسابقت نہیں۔ساتھ ہی ایران نے سی پیک میں دلچسپی بھی ظاہر کردی ہے۔
مودی جی آپ کو اور کچھ نہیں سوجھتا تو آپ سرجیکل سٹرائیک کا کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ ہاں یہ بات آپ کے حق میں ضرور جاتی ہے کہ آپ کے سرجیکل سٹرائیک کے جھوٹے دعوے کے باوجود عالمی سطح پر پاکستان کی ہمدردی میں کوئی بیان کیوں نہ آیا۔ خیر اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ عالمی سطح پر یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ آپ فقط دعویٰ ہی کرتے ہیں۔ درحقیقت آپ کے بیان کردہ ”سرجیکل سٹرائیک“ کے وقت لائن اف کنٹرول پر کوئی بھی غیرمعمولی حرکت نہیں دیکھی گئی،سکول بھی کھلے رہے اور بازار بھی، پھر سرجیکل سٹرائیک کیسی۔ پھر پاکستانی حکومت اس بات کو یکسر تسلیم ہی نہیں کرتی کہ کوئی سرجیکل سٹرائیک ہوئی بھی ہے۔
ہرحال سرکار آپ پنڈتوں کے ساتھ پوجا پاٹ کرنے پر دھیان دیجئے یہ گیڈر بھپکیاں پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ آپ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کشمیر کو بھارت نے فقط ایک رسمی معاہدے کے تحت ہتھیا لیاہے۔ اور آپ کی خواہش ہے کہ اسی طرح ہتھیائی گئی دوسری ریاستوں کی طرح کشمیر بھی بھارت میں ضم ہو جائے۔ تو مودی جی افسوس کے ساتھ، آپ کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ آپ کب تک کشمیر یوں کی سیاسی اور اجتماعی جدوجہد کو کچلنے کے لئے اپنے مذموم منصوبوں پر عمل کرتے رہیں گے۔ آپ کب تک کشمیر میں اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ آپ کب تک لڑیں گے؟ دیکھ لیجیے گا وہ دن دور نہیں جب کشمیر سے آپ کو بھاگنا پڑے گااورکشمیر کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنا ہوگا۔
مسلمانوں سے بغض اور عداوت کی جو آگ آپ کے من میں بھڑک رہی تھی،وہ شعلہ بن کر آپ کے ہونٹوں سے نکل رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مسلمانوں سے دشمنی آپ کی گھُٹی میں پڑی ہے۔ بھارت میں بابری مسجد گرا دی جاتی ہے، گجرات میں مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا جاتا ہے، سمجھوتا ایکسپریس کو مسافروں سمیت جلادیا جاتا ہے، بولی وڈ کی مسلمان شخصیات کو بات بات پر دھمکیاں دی جاتی ہیں، مگر ایسا کرنے والوں کا عمل ہندو دہشت گردی قرار نہیں دیا جاتا۔آپ بات بے بات اسلامی دہشت گردی کی بات کرتے ہیں یہ تو کہیے جناب کہ یہ اسلامی دہشت گردی ہوتی کیا ہے؟ دہشت گردی کا کوئی مذہب کوئی فرقہ نہیں ہوتا۔ کشمیر میں جاری حقوق کے لیے جنگ اور ظلم کے خلاف جدوجہد اور ردعمل میں فرق کرلیجیے، پھر اسلامی دہشت گردی کی بات کیجیے گا۔ آپ انتہاپسند بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارندوں کو آشیرباد دیتے ہیں، ایسے میں آپ کسی کو انتہاپسندی یا دہشت گردی کا الزام دیتے اچھے نہیں لگتے۔
بھارتی پردھان منتری جی! پاکستان کو ڈرانے، دھمکانے، جھکانے اور دبانے کی کوششیں چھوڑیے، یہ لاحاصل ثابت ہوں گی، جو وقت آپ ان کوششوں میں لگاتے ہیں وہ اپنے ملک اور فوجیوں کے مسائل حل کرنے پر صرف کیجیے، اگر آپ کو دیگر ممالک کے دوروں اور ان دوروں میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے سے فرصت مل چکی ہو تو کبھی اپنے مہان دیش کی یاترا بھی کرلیجیے اور دیکھیے کہ آپ کے ”شائننگ انڈیا“ میں کیسا اندھیر مچا ہے۔ چلیے ہم آپ کو آپ کے بھارت کی تصویر دکھاتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر نوک پر ہے لیکن تلوار چلانے والے ہاتھ اس قابل نہیں کہ وار سہہ سکیں۔ جی ہاں کشمیر میں آپ کے فوجیوں کی ذہنی اور جسمانی حالت کا پول دنیا کے سامنے کھل چکا ہے، جو بھارتی آرمی کی ناقص منصوبہ بندی کا بے سرا راگ اقوامِ عالم کے سامنے الاپ رہا ہے۔ تضادات سے بھرا بھارتی سماج اپنے میڈیا کے کینوس پر خوبصورت منظرکشی کرتے نہیں تھکتا، جب کہ یہ سماج وحشی جانوروں کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔ یہ انکشاف سامنے آچکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ستمبر2009 میں بھارتی فوجیوں میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا اور اس وقت پوری دنیا میں افواج میں خودکشی کرنے والوں کی شرح سب سے زیادہ آپ کے کشمیر میں تعینات فوجیوں کی ہے۔ مودی جی! جس دیس میں سیتا کے احترام میں سر جھکتے ہیں جہاں دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے، وہاں عورتیں غیرمحفوظ ہیں۔ اپنے فوجیوں کو خودکشی سے بچانے اور نفسیاتی مریض بننے سے روکنے کے لئے آپ کی خفیہ ایجنسی را نے سوچی سمجھی سازش کے تحت خاتون فوجیوں کو بڑی تعداد میں سرحدی گارڈ کے طور پر نوکری فقط اس لئے دی گئی کہ وہ آپ کے کشمیر میں تعینات فوجیوں کی تفریح کا ساماں بن سکیں اور ان کی جنسی خواہشات کی تسکین کرسکیں۔ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب بارڈر پر فرائض انجام دیتی 178 خاتون فوجیوں میں سے 63 غیرمحفوظ جنسی سرگرمیوں کی وجہ سے سنگین طبی مسائل کا شکار ہوگئیں اور حاملہ ہوگئیں۔ یہ تو فوجی خواتین کا حال ہے دوسری طرف دارالحکومت دہلی میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران خواتین سے زیادتی کے واقعات میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ بھارتی راج دہانی کو ”ریپ کیپیٹل“ کہا جانے لگا ہے۔ گذشتہ برس پندرہ دسمبر سے پہلے کے بارہ مہینوں کے دوران دہلی میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مجموعی طور پر 2069 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس عرصے سے پہلے کے ایک سال کے دوران عورتوں اور لڑکیوں کے ریپ کے واقعات کی یہی تعداد 1571 رہی تھی۔ دہلی کے پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران شہر میں ریپ کے واقعات کی شرح میں 31·6 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
آپ کی سرکار مقبوضہ کشمیر کا قافیہ بلوچستان سے ملانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ اس حقیقت سے آپ بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ کشمیر اور بلوچستان کا کوئی موازنہ نہیں۔ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جب کہ بلوچستان پاکستان کا تسلیم شدہ حصہ، لیکن آپ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ آپ کی فوج کشمیر میں پاکستان کے پرچم لہرانے سے آج تک نہیں روک سکی ہے اور نکسل باڑی باغی آپ کی سینا کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، اور اب تو مشرقی پنجاب میں خالصتان کی تحریک پھر جنم لے چکی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی صاحب! آج کشمیر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں غیرمسلح ہونے کے باوجود سڑکوں پر نکل آئے انہیں موت سے ڈر نہیں لگتا نہ ہی اُن کے ماں باپ انھیں روکتے ہیں۔ نوجوانوں اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں پتھر ہیں یہ پتھر ہی ان کا ہتھیار ہیں۔ اس وقت ان کے سروں میں صرف آزادی کا سودا سمایا ہوا ہے۔
نریندر مودی جی پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں۔ ایک چھوٹی سی غلطی کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتا پڑے کا۔ جنگی جنون مسائل کا حل نہیں۔ آپ پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کریں یا یہاں کے بعض لوگ بھارت کے ٹکڑے کرنے کی بات کریں، دونوں بیانات ہی تباہی کے خوف ناک سپنے لئے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی بارڈر کے اس طرف ہو یا اس طرف اس کی مذمت کرنا ضروری ہے نہ کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرنا۔ اور ہاں اب وقت آگیا ہے کہ آپ مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ وہاں کی عوام سے ریفرنڈم کی صورت میں کروالیں اور اپنے سات لاکھ فوجیوں کو بھی ریاستی دہشت گردی کا حصہ بنے سے روک لیں۔ پیچھے ہٹ جانے کو بزدلی سے تعبیر کرنا ٹھیک نہیں، بلکہ حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے فیصلہ کرنا آنے والی نسلوں کے لئے یقیناً خوش آئند ہو گا۔
( پروفیسر ثناء غوری ابلاغ عامہ کی استاد، کالم نگار، بلاگر، مصنفہ اور سیاسی و معاشرتی تجزیہ کار ہیں، وہ معاشرے کے سلگتے ، حساس اور اُن موضوعات پر بھی بلا جھجک اور بے تکان لکھتی رہتی ہیں جن کے بارے میں ہمارے معاشرے میں سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے ، پروفیسر ثنا غوری اب ’’ڈیلی پاکستان آن لائن‘‘ کے لئے خصوصی طور پر لکھا کریں گی ،آپ ان سے براہ راست رابطے کے لئے ان کی ای میل آئی ڈی پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔sanaghoriexpress@gmail.com
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔