لال مسجد انتظامیہ اور حکومت میں کشیدگی،ذمہ دار کون اور حل کیا ہے ؟دونوں فریقوں سے مذاکرات کرنے والے علامہ طاہر اشرفی میدان میں آگئے

لال مسجد انتظامیہ اور حکومت میں کشیدگی،ذمہ دار کون اور حل کیا ہے ؟دونوں ...
لال مسجد انتظامیہ اور حکومت میں کشیدگی،ذمہ دار کون اور حل کیا ہے ؟دونوں فریقوں سے مذاکرات کرنے والے علامہ طاہر اشرفی میدان میں آگئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد میں واقع ملک گیر شہرت اختیار کرنے والی لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز ،جامعہ حفصہؓ کی سربراہ اُم حسان اور حکومت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی،مسجد کے محاصرے ،آپریشن  کی  باز گشت اور افواہوں  کے دوران حکومت اور جامعہ حفصہؓ کی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے والے پاکستان علماءکونسل کے  چیئرمین  علامہ طاہر محمود اشرفی نے اب تک کی صورتحال کے حوالے سے ساری حقیقت کھول کر رکھ دی ہے،لال مسجد انتظامیہ اور حکومت میں سے کون معاملات کو کشیدہ کرنا چاہتا ہے اور اس سنگین مسئلے کا حل کب  اور کیسےممکن ہو گا ؟علامہ طاہر اشرفی اندر کی  ساری باتیں باہر لے آئے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان علماء کونسل اور صدر وفاق المساجد والمدارس علامہ حافظ طاہر محمود اشرفی نے سوشل میڈیا پر جاری کئے جانے والے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہاہے کہ گذشتہ دو تین روز سے لال مسجد کے حوالے سےمختلف افواہیں اور غلط بیانیاں ہورہی ہیں،لال مسجد کے حوالے سے نہ تو حکومت    نے ہمیں کہا اور نہ ہی مولانا عبد العزیزنے،اُمِ حسان صاحبہ کا ایک پیغام مختلف اطراف سے ہمیں پہنچا   تو اِس پیغام  کو دیکھتے ہوئے ہم نے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ  صاحب سے رابطہ کیا ،اُن کی طرف سے ہمیں بہت ہی پازٹیو  اور مثبت رویہ دیکھنے  کو  ملا،اُس کے بعد ہم مولانا عبد العزیز  اور اُمِ حسان صاحبہ کے پاس گئے ،اُن کی طرف سے بھی ہمیں بہت ہی  اچھے اور مثبت انداز میں معاملات کو حل کرنے کی خواہش نظر آئی جس  پر اس معاملے کو ہم نے حکومت کے ذمہ داران کوبھی بتلا دیااور مولاناعبد العزیز کو بھی  بتلا دیا ۔

علامہ طاہر اشرفی کا کہنا  تھا کہ ابھی یہ بات چیت باضابطہ انداز میں شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک دم یہ پراپیگنڈہ  شروع کر دیا گیا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں ، مولانا عبد العزیز نے قبضہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ،حکومت  آپریشن کرنے جا رہی ہے،یہ ساری افواہ سازی کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ کسی طریقے سے کوئی ٹکراؤ اور فساد ہو اور کوئی انتشار پھیلے جبکہ حقیقت  یہ ہے کہ  اِس وقت کی صورتحال میں ایک بد اعتمادی کی فضا قائم ہےجسے ختم کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کے ذمہ داران اور مولانا عبد العزیز کی طرف سے بھی اس بات کی ضرورت ہےکہ بد اعتمادی کی فضا کو ختم کرنے کے لئےافواہ سازی  اور انتشار پھیلانے والوں  کی باتوں سے اجتناب برتتے ہوئے معاملات کو آگے کی طرف لیجایا جائے۔

اُنہوں نے کہا کہ میں  یہ بات واضح کرناچاہتا ہوں کہ ہمیں تویہ نظرآ رہاہےکہ دونوں فریق مثبت انداز میں بات کر رہے ہیں،حکومت کا رویہ بہت مثبت ہے اور اُس کا کہناہے کہ وہ کوئی آپریشن نہیں کرنے جا رہے جبکہ مولانا عبد العزیز کہتے ہیں کہ  اُن کے جو مطالبات اور ماضی میں  کئے گئے  وعدے ہیں اُنہیں اُ ن کی تکمیل چاہئے۔علامہ طاہراشرفی نےکہاکہ جب  ٹیبل پربیٹھیں گےتو یہ معاملات حل ہوںگے،خدا کےلئےبلاوجہ کی افواہ سازی اورانتشارنہ پھیلایئے،انتشار پھیلانے اور افواہ سازیوں سے اگر کوئی نقصان ہوا تو  اس کے ذمہ دار قیامت کے روز ایسے لوگ ہی ہوں  گے جو بغیر سوچے سمجھے بے  بنیادافواہیں پھیلا رہے ہیں۔انہوں  نے کہاکہ میں اس موقع پر ملک کے مقتدر علماء سے گذارش کروں گا کہ وہ آگے آئیں اور اس بد اعتمادی کی فضا کو ختم  کرا کے ہمیشہ ہمیشہ کے  لئے اس قضیہ کے حل کا راستہ نکالیں،یہ قضیہ حل ہو سکتاہے ،حکومت قانون اور آئین کے دائرے کے اندر ہر شہری کا جو حق ہے وہ حق مولانا کو دینے کے لئے تیار نظر آتی ہے،مولاناعبد العزیز بھی قانون کے دائرے کے اندر اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں تو پھرکیاوجہ ہے کہ ایسے لوگ جو ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں وہ مختلف افواہیں پھیلاتے ہیں اور اپنی خواہشات کو خبر بنا دیتے ہیں اِن  سے بچنے کی ضرورت ہے،علماء کو بھی آگے آنا چاہئے،حکومت  کے ذمہ  داران کو بھی آگے آنا چاہئے،مولانا عبد العزیز اور اُم حسان صاحبہ کو بھی آگے آکے مثبت انداز میں مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنا چاہئے،نا امیدی اور مایوسی تو ہونی ہی نہیں چاہئے،یہ پاکستان ہمارا  ہے ،یہ ریاست اور یہ وطن ہمارا ہے ،اس ریاست اور اس وطن کے اندر ہمیں ہر وہ کام کرنا ہے  جس  سے یہ مضبوط ہو اور ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے یہ کمزور ہو ۔

انہوں نے کہا کہ میں حکومت اور مولانا عبد العزیز  کا شکریہ ادا کروں گاکہ اُنہوں نے ہماری بات سنی اور بہت سی مثبت چیزیں اِن معاملات میں سامنے آئی ہیں، میں  امید کرتا ہوں  کہ  آئین  اور قانون کے دائرے کے اندر دونوں فریق  معاملے کے حل کی طرف آگے بڑھیں گے ،اگلے 24 سے 48 گھنٹوں میں معاملات مثبت سمت میں  جائیں گے ،خدانخواستہ کوئی ایسی  صورت ہمیں بالکل پیدا کرنی ہے اور نہ ہی معاونت کرنی چاہئے جس سے فتنہ اور انتشار پیدا ہو ۔ 

مزید :

قومی -