مولانا صاحب ،امام ابو حنیفہؒ کا "حرفِ انکار "بھی یاد رکھیں
عالمی شہرت یافتہ مبلغ عزت مآب مولانا طارق جمیل پھر موضوع بحث ہیں۔۔۔اب کی بار " ایم ٹی جے " کے نام سے فیشن برانڈ ٹاک آف دی ٹاؤن بنا ہوا ہے۔۔۔ جوں ہی خبر بریک ہوئی کہ مولانا کپڑے کا کاروبار شروع کرنے جا رہے ہیں بے لگام سوشل میڈیا نے حسبِ معمول آسمان سر پر اٹھا لیا۔۔۔وہی بہتان بازی،وہی دشنام طرازی۔۔۔!!!
مولانا طارق جمیل نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے پہلے "باقاعدہ بزنس "کی تصدیق کرتے ہوئے پسِ پردہ وجوہات بھی عوام کے سامنے رکھ دی ہیں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا کی نئے سال کی "پہلی وضاحت" میں جہاں کچھ باتوں میں کافی وزن ہے وہاں ایک دو باتیں ادھوری بھی ہیں۔۔۔وضاحت کی بات آئی تو عرض ہے کہ مولانا اب وضاحتوں کے عادی ہوچلے ہیں۔۔۔گذشتہ سال پہلے کورونا "فنڈ ریزنگ شو" اور پھر ایک "ایلیٹ کلاس نکاح" پر ہنگامہ کھڑا ہوا،جس پر اُنہیں وضاحت دینا پڑی۔۔۔
بی بی سی کے مطابق کراچی میں رجسٹرڈ کمپنی کی "لنکڈ ان پروفائل" میں لکھا ہے کہ یہ ایک فیشن برانڈ ہے۔۔۔کمپنی کوالٹی اور دیانتداری سے چلائی جائےگی اور یہ مولانا طارق جمیل کی خدمت خلق سے متاثر ہو کر قائم کی گئی ہے جبکہ ویڈیو کے مطابق مولانا نے "حالِ دل "سناتے ہوئے فرمایا کہ 2000ءمیں فیصل آباد سے شروع کیے گئے مدرستہ الحسنین کی اب 10شاخیں ہیں۔۔۔پچھلے برس کورونا کی لہر چلی اور لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہوگئے۔۔۔میں نے بھی مدارس بند کر کے آن لائن اسباق شروع کر دیے۔۔۔میں سوچتا کہ اِن حالات میں کس منہ سےلوگوں سے چندہ مانگوں ؟؟؟ہمارے مدارس کا نظام زکوۃ و صدقات پر چلتا ہے۔۔۔سوچ میں پڑگیا کہ اب یہ سسٹم کیسے چلے گا؟؟پھر اللہ نے میرے دل میں ڈالا کہ ہم کوئی کاروبار کریں جس کی کمائی مدارس پر لگائیں...دوستوں نے تعاون کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میرے نام پر ایک معاہدے کے تحت "ایم ٹی جے" برانڈ قائم کیا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا کاروباری ذہن نہیں۔۔۔ پیسے بنانے کے لیے کاروبار نہیں کر رہا...ساری زندگی پیسے نہیں بنائے۔۔۔جب سے تبلیغ میں لگا ہوں کاروبار نہیں کیا۔۔۔1984ءمیں ایک بار کپاس کاشت کرائی تھی...
اُنہوں نےشکوہ کیا مولوی کا تصور ہے کہ وہ بھیک مانگتا ہے۔۔۔کاروباری نیت سے یہ کام شروع کیا نہ کسی سے مقابلہ ہے۔۔۔اس برانڈ کی کمائی فاؤنڈیشن پر لگانا چاہتا ہوں جس کے تحت ہسپتال اور سکول بنائینگے۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے برصغیر میں علما کا کاروبار یا تجارت کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔۔۔پتہ نہیں یہ بات کہاں سے آگئی؟حالانکہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ، جن کے فتوے ہم مانتے ہیں،ان کے زمانے میں ان سے بڑا کپڑے کا تاجر کوئی نہ تھا۔۔۔ اس سے پہلے مولانا کے ترجمان نے بھی کہا تھا کہ کراچی کی ایک کمپنی اپنے برانڈ کے لیے مولانا طارق جمیل کا نام استعمال کرنا چاہتی ہے تاہم انہوں نے اس بارے تفصیلات نہیں بتائیں۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت کا نام خوب خوب بکتا ہے۔۔۔سرکاری ٹی وی سمیت ملک کے تقریبا تمام چھوٹے بڑے چینلز نے مولانا طارق جمیل کانام بیچ کر شہرت کمائی۔۔۔ افسوسناک بات ہے کہ دین کے نام پر قائم ایک نجی چینل نے تو ان کا نام استعمال کرکے خوب پیسے بھی بنائے اور پھر خوب ہنگامہ بھی کھڑا کیا۔۔۔ اب "کپڑے والے بھائی ""شلوار قمیض" اور" کرتے پاجامے" کے نام پر ان کا نام بیچیں گے کہ جن کے پاس "گز" بھی ہے اور" قینچی" بھی۔۔۔یوں معاملہ اورزیادہ نازک دکھائی دیتا ہے۔۔مولانا جہاندیدہ آدمی ۔۔۔وہ دنیا گھوم چکےہیں۔۔۔انہیں مشورہ دیناسورج کو چراغ دکھانےکے مترادف ہے۔۔۔ہم سکول کے زمانے سے مولانا طارق جمیل صاحب کے عقیدت مند ہیں۔۔۔کوئی دو سال پہلے بحریہ ٹاؤن لاہور کے خطیب جناب مفتی احمد علی کی سربراہی میں جامعتہ الحسنین میں ملاقات پر حضرت نے ہمارا بہت اکرام کیا۔۔۔ ہم ان کے پیچھے دو نمازیں پڑھ اور براہ راست خطاب سن چکے ہیں۔۔۔ہم نے ان کے دستر خوان پر رات کا پر تکلف کھانا بھی کھایا۔۔۔ "جذبہ خیر خواہی "کے تحت عرض ہے کہ انہیں اس" کمرشل سفر" میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا کہ سرمایہ دار دین دار ہو یا دنیا دار اس کا" مائنڈ سیٹ" ایک ہی ہے۔۔۔ہمارے ایک بزنس مین دوست کہا کرتے ہیں کہ ہم" پارٹی" کو اس کے کھاتے سے ہی اس مہارت سے "انٹرٹین"کرتے ہیں کہ پیسے بھی اس کے ہوتے ہیں اور خوش بھی وہ صاحب ہوتے ہیں۔۔۔
مولانا کے پیغام میں ہسپتال اور سکول کی خوشخبری سے دل خوش ہوا کہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے یہ بہترین راستہ ہے۔۔۔میں نے بہت پہلے کچھ جید علمائے کرام کے سامنے جھولی پھیلائی تھی کہ ہسپتال نہیں تو ڈسپنسریاں ہی بنانا شروع کردیں۔۔۔دوسرا انسداد چندہ کے لیے بھی یہ اچھا اقدام ہے ۔۔مولانا کے پیغام میں ایک ابہام اور ایک ضعف بھی ہے کہ اُنہوں نے فاؤنڈیشن بارے نہیں بتایا کہ یہ کب اور کس نام سے بنائی؟؟؟کیا یہ فاؤنڈیشن تبلیغی کام کے متوازی کسی نئی" دینی تحریک" کی بنیاد ہے؟؟؟دوسری بات کہ جب وہ کاروباری ذہن ہی نہیں رکھتے تو کاروبار کیسے چلے گا؟؟؟
مولانا صاحب نے اپنے کاروبار کے حوالے سے جناب امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا ریفرنس دیا ہے۔۔۔یہ بہت ہی معتبر حوالہ ہے۔۔۔پیر کامل سید علی ہجویریؒ اپنی کتاب" کشف المحجوب" میں حضرت نعمان بن ثابتؒ کی بزرگی بارے لکھتے ہیں "میں ملک شام میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس سو رہا تھا کہ خواب میں رسول اللہﷺباب بنو شیبہ سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور آپﷺ کی گود مبارک میں ایک بوڑھے شخص ہیں...میں تعظیما کھڑا ہوگیا اور قدم بوسی کی..میں حیران تھا کہ یہ بوڑھے شخص کون ہیں؟رسول کریمﷺ نے میرے دل کی حیرانی بھانپ لی اور فرمایا کہ یہ تمہارے اور تمہارے اہلِ وطن کے امام ہیں۔۔۔
علمائے کرام بتاتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے کپڑے کا بزنس ایسی اعلی اقدار کے ساتھ کیا کہ کاروباری دنیا کے لیے مثال بن گئے۔۔۔ ایک بار جناب آپ کے شاگرد نے ایک تھان کا عیب بتائے بغیر تیس ہزار درہم کا کپڑا بیچ دیا ۔۔۔آپ برہم ہوئے اور گاہک کو تلاش کرنے کا حکم دیا۔۔۔جب خریدار نہ ملا تو ساری رقم خیرات کر دی۔۔۔ایک دفعہ ایک شاگرد نے کسی کو چار سو کا کپڑا ہزار درہم میں بیچ دیا۔۔۔امام صاحب نے مدینہ جا کر گاہک کو ڈھونڈ نکالا اور باقی پیسے واپس کیے۔۔۔
علمائے کرام یہ بھی بتاتے ہیں کہ جناب امام ابو حنیفہؒ نے صرف کپڑا ہی نہیں بیچا کلمہ حق کے لیے "زہر کا پیالہ" بھی پیا۔۔۔اُنہوں نے جابر حکمرانوں کے سامنے" حرف انکار "کی روایت ڈالی۔۔۔امام صاحب کو اموی اور عباسی ادوار میں تین مرتبہ قاضی القضاہ کے عہدے کی پیشکش ہوئی۔۔۔آپ نے تینوں مرتبہ یہ منصب ٹھکرا دیا۔۔۔ اس پاداش میں کوڑے کھائے اور عمر قید کی سزا بھگتی۔۔۔پھر بھی بات نہ بنی تو حاکم بغداد خلیفہ ابو جعفر منصور نے اپنے وقت کے سب سے بڑے امام کو زہر دیدیا اور یوں جیل سے اس جبل استقامت کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھا۔۔۔ابوجعفر منصور کے ساتھ آپ کا مکالمہ بھی تاریخ ساز ہے۔۔۔بادشاہ نے کہا چیف جسٹس بن جائیں۔۔۔ امام صاحبؒ نے کہا کہ میں اس کا اہل نہیں۔۔۔وہ بولا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ امام صاحب نے فرمایا پھر تو جھوٹا شخص اتنے بڑے منصب کا اہل ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔امام صاحب کا تجارت سے اسارت کا سفر بھی اپنے اندر بہت سے پیغامات سموئے ہوئے ہے۔۔۔
مولانا صاحب کو" ایم ٹی جے"مبارک ہو!اللہ کرے ان کا برانڈ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔۔۔ان کے مدارس پھلیں پھولیں ۔۔۔ ہسپتال اور سکول بھی بنیں۔۔۔امر واقعہ یہ ہے کہ طارق جمیل صاحب تبلیغی جماعت کے علم برداروں میں سے ہیں۔۔۔وہ اللہ والوں کی اس جماعت کا چہرہ مہرہ ہیں۔۔۔تبلیغی جماعت کا برس ہا برس سے اپنا نظم ہے اور وہ اصولی طور پر اس نظم کے پابند ہیں۔۔۔شاید بزرگوں میں مولانا صاحب پہلے آدمی ہیں جو جماعت کی" ڈومین" سے اس "ماڈرن انداز "میں باہر نکلے ہیں۔۔۔سوال یہ ہے کیا جماعت کے بڑے اس" ایڈونچر "کو سند قبولیت بخشیں گے۔۔۔؟؟اگر نہیں تو مولانا کہاں "کھڑے" ہونگے کہ ان کی پہلی اور آخری شناخت یہی بوریا بستر والے لوگ ہیں۔۔۔ہمارے خیال میں اس "غیر معمولی سرگرمی" کے لیے بزرگوں کی اجازت لازمی ہے کہ کل کو خدا نخواستہ " ایم ٹی جے "برانڈ میں کوئی "مس ایڈونچر" ہوجاتا ہے تو طارق جمیل صاحب پر انگلیاں اٹھیں گی اور مولانا صاحب کی بدنامی بہر کیف نیک نام تبلیغی جماعت کی بدنامی ہے۔۔۔مکرر عرض ہے کہ قابل صد احترام مولانا طارق جمیل صاحب کو عزت اور شہرت کسی ٹی وی چینل اور کپڑے کے برانڈ نہیں،رائیونڈ مسجد کی پھٹی پرانی چٹائی سے ملی،جس بنیاد پر عزت ملی ہو اسے کسی قیمت نہیں چھوڑنا چاہئیے۔۔۔دست بستہ گزارش ہے کچھ بھی کریں اپنے "روحانی مرکز" سے اتنا دور نہ جائیں کہ دنیا کی "گرد و غبار" میں ہی کھو جائیں۔۔۔!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔