ایک متلون مزاج حکمران
کنٹینر پر تحریک انصاف نے جو خواب بنے تھے وہ خواب کنٹینر سے نیچے اترسکے نہ اس سے آگے بڑھ سکے کہ ان خوابوں کو یہیں بیدار ہوکر ہمیشہ کے لئے یہیں سو جانا تھا۔ کنٹینر پر عوام سے جتنے وعدے کئے گئے آج ان میں سے کوئی وعدہ جناب عمران خان کو یاد بھی نہ ہو گا کنٹینر ایام میں جہاں عوام کے مستقبل کو ترتیب دیا گیا وہاں سیاست کو تاریخ کے نئے موڑ پر بھی لے جایا گیا اس وقت کے وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر وزیراعظم ہاؤس سے باہر لانے کی بات کی گئی عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا گیا۔اہ، سرکاری عمارتوں پر کپڑے تک سوکھنے کو لٹکائے گئے ریاست کے اہم اداروں پر یلغار کردی گئی جناب عمران خان دورہ روس سے پہلے چائنہ کا کامیاب دورہ کر چکے ہیں اور وہ یہ بات بھی بھول بھی چکے ہونگے کہ چائنہ کے صدر کا دورہ پاکستان ان کے کنٹینر کے طفیل اس وقت ملتوی ہوا تھا جب پاکستان سی پیک کی صورت معاشی دھماکے کرنے جارہا تھا او ر پاکستان میں چائنہ کے صدر کی آمد پر عمران خان صاحب نے اپنے دھرنے ملتوی کرنے سے انکار کردیا تھا اس میں کسی کو کیا شک ہوگا کہ سی پیک ہمارے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے جناب عمران خان اپنے ایران کے دورہ میں اس بات کا برملا اعتراف کرچکے ہیں کہ ایران میں پاکستان کی طرف سے دہشت گرد آتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردوں کی حالیہ وارداتوں میں ایران سے آنے والے ممکنہ دہشت گردوں سے بھی کسے انکار ہوگا اور ادھر ایرانی سفیر بھارت میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ گوادر کی کیا اہمیت ہے چاہ بہار،گوادر سے بہتر ہے،حالانکہ چاہ بہار میں جہاز بیس ہزار ٹن سے زیادہ کچھ لے جا نہیں سکتا، جبکہ گوادر میں جہاز ایک لاکھ ٹن سے زائد وزن لے جا سکتا ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپوزیشن کو زچ کرنے سے فرصت ملے تو وہ سیاسی بصیرت سے کام لیں اور دنیا کے پراپیگنڈہ کا مقابلہ کریں ایک طرف رات کے اندھیرے میں پٹرول کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں تو ساتھ ہی محسن بیگ کیس کا ایشو سامنے آجاتا ہے تا کہ میڈیا کی ساری توجہ ہی محسن بیگ اور حکومتی محاذ کی طرف جا لگے کیا یہ سارا کچھ طے شدہ نہ تھا؟ محسن بیگ تو جناب عمران خان کے ساتھیوں میں سے تھے اور عمران خاں صاحب کا ساتھ دینے والے ساتھیوں کا ایک ایک کر کے،جو انجام ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے احمد جواد، محسن بیگ سے پہلے ایک تازہ مثال ہیں اب فیک نیوز کی آڑ میں میڈیا پر جو نیا ترمیمی آرڈیننس مسلط کر دیا گیا ہے وہ بھی عمرانی سلطنت میں ہونا ہی تھا کہ جناب عمران خان کے دھرنوں کو میڈیا نے جو غیر معمولی کوریج دی تھی مجھے اس وقت اس پر بہت تعجب تھا تحریک انصاف کے جلسوں کو یہاں تک کوریج ملی کہ ایک جلسہ کے ختم ہونے پر ایک رپورٹر ٹی وی پر بتارہا تھا کہ ناظرین یہ وہ جگہ ہے،جہاں پی ٹی آئی نے جلسہ کیا تھا۔اب یہاں سے لوگ جا چکے ہیں اندھیرا ہوچکا ہے کرسیاں اٹھائی جارہی ہیں ایسی کوریج کا حقدار تو کوئی کشمیر کی فتح کے بعد ہی ہو سکتا ہے پھر جناب عمران خان اس بات کا برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ میڈیا نے ان کی تحریک کو جلا بخشی یہی وجہ ہے کہ وہ میڈیا کے شکرگذار نظر آتے میڈیا کا کیمرہ تو ان کے لئے ناقابل ِ تسخیر دفاع ثابت ہوا۔ عمران خان کی تحریک میں میڈیا کے لازوال کردار کے بعد جب جناب عمران خان برسراقتدار آئے اور میڈیا نے انکی حکومت میں مسائل کی نشاندہی شروع کی تو جناب عمران خان میڈیا پر ہی برس پڑے اور کہا کہ اخبارات نہ پڑھئے۔ ٹی وی نہ دیکھئے پھر معذرت کے ساتھ مجھے کہنے دیجئے کہ عمران خان صاحب کی جماعت تو جعلی خبروں کی بانی جماعت ہے یہاں ہر شہری کی عزت نفس کی پاسداری ہونی چاہئے ایسا نہیں کہ جناب عمران خاں کی شخصیت پر کسی نے بات کی تو پورا میڈیا ہی زیر عتاب آجائے ہم محسن بیگ کے طرفدار نہیں، لیکن یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ جب ایف آئی اے کے اہلکارسول کپڑوں میں ان کے گھر گئے تو محسن بیگ اندازہ نہ کر سکے کہ یہ لوگ کون ہیں کیونکہ ان گلیوں کی طرف پہلے چوریوں کی کچھ وارداتیں ہو چکی تھیں اس لئے محسن بیگ کی تشویش تو درست تھی اور پھر جناب حفیظ اللہ نیازی بھی ایک ٹی وی شو میں یہ بات بتا چکے ہیں کہ جب کچھ اہلکار عمران خان کو گرفتار کرنے آئے تو میں نے ان سے وارنٹ کا پوچھا تھا چونکہ اب یہ معاملہ عدالتوں میں ہے، جس پر مزید بات کرنا ٹھیک نہیں، لیکن اب یہ بات تو کی جا سکتی ہے کہ جناب عمران خان عوام سے جو بلند و بانگ دعوے کرکے آئے تھے وہ سب وعدوں سے انحراف کر چکے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ اپنی کہی باتوں سے یو ٹرن لے چکے ہیں،بلکہ وہ اپنے لئے ہر یوٹرن کو درست قرار بھی دے چکے ہیں ان کی منطق ہے کہ یو ٹرن نہ لینے والا کبھی بڑا لیڈر نہیں ہوتا ایسے متلون مزاج حکمران سے کیا توقع کی جا سکتی ہے آج عام آدمی تو رہا ایک طرف صاحب ثروت بھی بلبلا اٹھے ہیں کہ ابھی تین سال پہلے 130میں ملنے والا گھی کا پیکٹ 450 روپے تک پہنچ چکا ہے چینی آٹا گیس بجلی پٹرول اور ادویات کی صورت حال تو سب کے سامنے ہے مہنگائی کے اس سیلاب کے سامنے عوام کا مستقبل کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں اس پر عمران خان اپنے جلسوں میں مہنگائی کے حوالے سے اپنی بے بسی کا بر ملا اعتراف کرتے بھی دکھائی دے رہے ہیں اور سوال تو یہ ہے کہ ایک بے بس حکمران اپنے عوام کے لئے کرہی کیا سکتا ہے اور کیا ایسے حالات میں انہیں مزید اقتدار کی خواہش کرنی چاہئے؟