آصف علی زرداری کی صحت بہتر، مولانا فضل الرحمن اور محمد شہباز شریف سے ملاقاتیں، جمعرات کو سراج الحق سے ملیں گے
لاہور ایک مرتبہ پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، اس کی بنیادی وجہ سابق صدر آصف علی زرداری کی یہاں موجودگی ہے جو چند روز نجی ہسپتال میں گزار کر بلاول ہاؤس آ چکے ہیں۔ ان کی طبیعت کے باعث بہت سی قیاس آرائیاں غلط ہو گئیں اور مولانا فضل الرحمن سے ان کی ملاقات یہیں ہوئی۔ آصف علی زرداری شام کو چل کر مولانا فضل الرحمن کی قیام گاہ گئے۔ یہ ملاقات میڈیا سے اوجھل رہی اور بعدازاں ایک اعلامیہ کی صورت میں خبر مہیا کی گئی۔ میڈیا کے حضرات نے بھی شاید تگ و دو نہیں کی۔ ورنہ اندرونی کہانی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تو علم ہوتا۔ شاید یہ کمال پیکا ترمیمی آرڈیننس کا ہے۔ بہرحال اطلاع یہ ہے کہ دونوں حضرات کے درمیان بات شکوؤں سے شروع ہوئی اور پھر پروگرام پر آکر رک گئی۔ آصف علی زرداری نے اپنا موقف وضاحت سے پیش کیا اور مولانا کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس کے لئے دیرینہ تعلقات بھی کام آئے اور مولانا قائل ہو گئے کہ عدم اعتماد ایک آئینی اور جمہوری راستہ ہے۔ اس لئے کوشش کرنا ہوگی کہ لانگ مارچ کی نوبت نہ آئے اور اس سے قبل ہی بات بن جائے۔ بہرحال واقف کار حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں ”بزرگوں“ کے درمیان جو تھوڑی الگ بات ہوئی۔ اس بارے میں کچھ علم نہیں یہ دونوں ہی جانتے ہیں، تاہم جو وفود کی موجودگی میں مشورہ ہوا وہ یہی تھا کہ عوامی حمائت بھی حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اور عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہر دو رہنماؤں نے رابطوں کے حوالے سے بھی بتایا کہ حکومتی پارٹی کے ناراض اراکین کی اکثریت عدم اعتماد کے حق میں رائے دینے پر رضا مند ہو جائے گی اور حکومتی حلیفوں کو بھی اپنا فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق کرنا ہوگا۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مولانا اور آصف علی زرداری ہی نے یہ بھی طے کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر اور قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ یہ ملاقات گزشتہ روز ہوئی اور آصف علی زرداری نے عشائیہ دیا۔ اطلاع تو یہ بھی تھی کہ مولانا فضل الرحمن بھی مدعو ہیں تاہم یہ تصدیق نہین ہوئی کہ وہ بھی شریک ہوئے یا نہیں۔ اغلب ہے کہ بعض امور اب میڈیا سے بھی اوجھل رکھے جا رہے ہوں اور اسی میں یہ بھی شامل ہو۔ بہرحال ایک بات طے ہو گئی کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی،پی ڈی ایم چھوڑنے کا اپنا فیصلہ تبدیل کریں یا نہ کریں، عدم اعتماد کے حوالے سے پوری اپوزیشن ایک ہو گئی ہے۔ اب تو پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ میں صرف چا رروز باقی ہیں۔ 27 فروری کو یہ سلسلہ کراچی سے شروع ہونا ہے اس لئے کسی مشترکہ لانگ مارچ کا معاملہ تو طے نہیں ہو سکا، البتہ تمام تر کوشش اور جدوجہد اب عدم اعتماد کی طرف ہو گئی ہے اور یہ اعلان بھی مولانا فضل الرحمن کریں گے کہ رابطے مکمل ہونے کے بعد مشترکہ اجلاس ہوگا، تاحال صورت حال واضح نہیں ہو رہی، جبکہ آصف علی زرداری مطمئن ہیں کہ یہ جدوجہد کامیاب ہوگی۔ اب یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے کل (جمعرات) کو منصورہ میں ملاقات ہو گی۔ یہ آصف علی زرداری کی طبیعت اچانک خراب ہونے کی وجہ سے موخر کی گئی تھی۔ امکان ہے کہ امیر جماعت سابق صدر کو اپنے نقطہء نظر سے آگاہ کریں گے کہ اپوزیشن کو صرف متحد نظر نہیں آنا چاہیے بلکہ حقیقت میں ایک دوسرے کے خلاف بات کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی امیر سراج الحق کی قیادت میں پہلے ہی سے حکومت مخالف جدوجہد کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس ملاقات میں یہ طے ہو گا کہ جماعت اسلامی متحدہ اپوزیشن کا حصہ بنتی ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو کس حد تک حمایت کرے گی۔
آصف علی زرداری کی لاہور میں موجودگی کے باعث پیپلزپارٹی کی بھی قیادت یہاں ہے۔ وائس چیئرمین اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف مخدوم یوسف رضا گیلانی بڑے سرگرم ہیں اور ان میں پوری طرح شریک ہیں۔ پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے دفتر میں یوسف رضا گیلانی نے پنجاب اور لاہور کی قیادت کے ساتھ مشاورت کی اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو بھی کی اور بتایا کہ پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ عوام کے لئے ہے۔ موجودہ حکومت کے کارناموں کی وجہ سے مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ پیٹرولیم کے نرخ بڑھائے گئے۔ بجلی اور گیس مہنگی کی گئی اور مزید مہنگا کرنے کے امکان ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ ماضی میں ایسا وقت کبھی نہیں آیا، انہوں نے پیکا ترمیمی آرڈیننس اور الیکشن کے ضابطوں میں تبدیلی کے ترمیمی آرڈیننس کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ پیپلزپارٹی عدالت سے رجوع کرے گی۔
مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) بھی بہت متحرک ہے بلکہ قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف تو دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان کی کوشش سے ہی ملاقاتوں کا سلسلہ ہوا اور ماڈل ٹاؤن کے حمائتی دفتر میں پارٹی کے اہم رہنماؤں سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے میڈیا سے بات کی اور ترمیمی آرڈی ننسوں کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ پیکا ترمیمی آرڈی ننس کا مقصد عوامی آواز ”دبانا“ میڈیا کو حکومتی خواہش کے مطابق چلانا اور مخالف آواز کو بند کرنا ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر آرڈی ننس کے ذریعے یہ پابندی لگائی گئی اور سزا مقرر کی گئی ہے تو سب سے پہلے خود عمران خان، ان کے وزیر اور ترجمان اس کی زد میں آتے ہیں۔ ان سب کو تو فوراً گرفتار ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ عدم اعتماد کے حوالے سے بہت کام ہو چکا، جلد ہی تاریخ بھی بتا دی جائے گی۔
اس سارے سلسلے میں مسلم لیگ (ق) کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے اپنی جماعت کے اہم اراکین کو لاہور میں بلا رکھا ہے اور مسلسل مشاورت بھی جاری ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے مسلم لیگ (ق) بھی پریشانی کا اظہار کرتی ہے، بہرحال ابھی ان کی طرف سے کسی حتمی فیصلے کا امکان نہیں اور حکومتی حلیف کی حیثیت برقرار ہے اور یہی پوزیشن جہانگیر ترین گروپ کی بھی ہے، وہ جماعت کے ساتھ ہیں اور اپنے گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔