ماہ شعبان اور علامہ ابو الحسناتؒ کی یاد ....

ماہ شعبان اور علامہ ابو الحسناتؒ کی یاد ....
 ماہ شعبان اور علامہ ابو الحسناتؒ کی یاد ....

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شعبان المعظم بھی برکات والا مہینہ ہے یہ رمضان المبارک کی نوید دیتا اور اہل ِ ایمان جسمانی طہارت کی تیاریاں کرتے ہیں،اللہ کی عبادت فرض ہے تو رمضان کے روزے بھی اسی کی عبادت کا حصہ ہیں جس کے روحانی اور جسمانی فوائد بے شمار ہیں، شعبان المعظم کا مبارک مہینہ بھی ہمارے لئے توبہ و تائب کے لئے ہے ان دِنوں کرہ ارض پر جو مصائب اترے ہوئے ہیں ان کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کوتاہیوں پر نظر ڈالے،خصوصاً اہل اسلام کے لئے تو یہ لازم ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور گناہوں سے حقیقی معنوں میں تائب ہو جائیں۔اہل ِ پاکستان جن کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک کلمہ توحید کی سربلندی کے لئے قائم ہوا ان پر لازم ہے کہ وہ دِل سے اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ آج مسلم اُمہ جن پریشانیوں سے دوچار ہے ان کی وجہ ہماری اپنی گمراہی تو نہیں،جائزہ لے کر ہمیں جھوٹ، فریب، مکر اور دغا بازی سے گریز کر کے سچے، دیانت دار اور نیک اعمال والے مسلمان بن جانا چاہئے جو سب کام اللہ کی رضا مندی کے مطابق کریں،دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں۔اللہ نے قرآن حکیم میں جگہ جگہ واضح طور پر اعمال کی درستگی کی تلقین فرمائی ہے۔ انسانی حقوق بھی متعین فرما دیئے ہیں اور پھر پاکستان کا تو دستور (آئین73ئ) بھی اسی لائحہ عمل کا عکس ہے، دُکھ کا مقام یہ ہے کہ اس آئین ہی کو پامال کیا جاتا ہے جو وفاق کی علامت اور ملک کوجوڑنے رکھنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔

میرے لئے شعبان المعظم کا یہ مہینہ اور خصوصی طور پر دو شعبان یوں بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہ یوم میرے بزرگ جیّد عالم باعمل علامہ سید ابو الحسنات کا یوم وفات ہے اور اس روز خصوصی طور پر ان کی نصیحت اور وعظ یاد آتے ہیں۔ علامہ ابو الحسنات جیسے عالم باعمل کی آج کے دور میں بڑی ضرورت اور ان کے افکار کی اہمیت ہے جب ہم دجل اور فریب کی زد میں ہیں۔ دنیاوی طور پر مصائب میں گھرے ہوئے ہیں اور اعمال کے حوالے سے ماتھوں پر محراب اور متعدد عمروں کی ادائیگی کے بعد بھی دِل نرم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ سنگدل ہو جاتے ہیں۔علامہ ابو الحسنات کی رحلت دو شعبان کو ہوئی اور ان کی تدفین کے لئے حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے پہلو میں جگہ مل گئی کہ ان کو کشف المحجوب کے ترجمے کی سعادت حاصل ہے جسے صوبائی سیکرٹری اوضاف محترم طاہر بخاری نے بہتر تدوین کے ساتھ دوبارہ شائع کیا۔


حضرت علامہ ابو الحسنات صرف عالم باعمل ہی نہیں ایک مجاہد بھی تھے، اُن کی ساری زندگی ریا کاری سے بالا حقیقی سادگی کی حامل تھی وہ اعتدال کی راہ پر چلنے والے مقبول ترین شخصیت تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب مجلس عمل تحفظ ختم نبوت بنی اس میں تمام مکاتب فکر کے ہل علم شامل تھے اور مقصد عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ تھا اس کل جماعتی تنظیم نے ان کو متفقہ طور پر سربراہ منتخب کیا اور انہوں نے بھی حق رہبری بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ ملک بھر خصوصاً لاہور میں تحریک ختم نبوت انہی کی قیادت میں شروع ہوئی اور اسی تحریک اور اس میں دی جانے والی قربانیوں کا پھل 1973ءمیں ملا جب آئینی طور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔


علامہ ابو الحسنات کی عملی زندگی کا ایک نمونہ یا مثال یہ تھی ہے کہ1948ءکے جہاد کشمیر میں انہوں نے خود شرکت کی تھی، وہ مولانا دیدار علی ؒ شاہ کے بڑے صاحبزادے اور ان کے جانشین تھے،ان کے چھوٹے بھائی علامہ ابو الرکات کو مفتی ہونے کا اعزاز حاصل ہے خود علامہ ابو الحسنات نے اپنی عمر طبعی کا قریباً سارا حصہ جامع مسجد وزیر خان کی خطابت میں گذارا، ان کا معمول تھا کہ وہ نمازِ فجر مسجد میں ادا کرتے،نماز کے بعد ایک گھنٹے تک قرآن حکیم کی تشریح و تفسیر کا درس دیتے،ان کی اس محفل میں دنیاوی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ لوگ بھی ہوتے تھے، اس کے بعد وہ مسجد ہی کے ایک حجرے میں بیٹھتے اور یہاں طلب علم والوں کے سوالات کے جواب دیتے تھے اس کے بعد وہ اپنی رہائش باغیچی صمدو اندرون اکبری دروازہ آتے اور اپنے مطب پر شفاءمریضان کی خدمت انجام دیتے وہ ادویات، خمیرہ جات وغیرہ خود تیار کراتے اور ان کی معاونت ان کے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری انجام دیتے، اس مطب پر معمولی خرچ عوض علاج ہوتا اور ہم جیسے اکثر لوگوں سے کچھ بھی نہیں لیا جاتا تھا۔علامہ ابو الحسنات کا یہ اعزاز بھی ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی تو ترکے میں صرف یہ گھر چھوڑا تھا کہ ان کی اور کوئی جائیداد یا وراثت نہیں تھی اور اس گھر کی ملکیت اور خریداری بھی ایک مثال ہے، ہمارے پیدائشی محلے کے صاحب ثروت بزرگ چودھری سراج دین ان کے عقیدت مند اور دوست تھے۔ عصر کے بعد جو محفل ہوتی اس میں یہ بھی شریک ہوتے تھے۔مولانا اس مکان میں کرایہ دار تھے اور ایک وقت آیا کہ یہ گھر برائے فروخت ٹھہرا،بابو سراج نے مولانا سے کہا کہ وہ خرید لیں تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس مطلوبہ ر قم نہیں ہے، بابو سراج نے ان سے کہا کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ لے آئیں توعلامہ ابو الحسنات کے اپنے پاس موجود زیور اور کچھ رقم تھی۔ سراج چودھری صاحب نے باقی اپنے پاس سے قرض حسنہ کے طور پر شامل کیا اور یہ مکان ان کی ملکیت ہو گیا جو ان کی واحد جائیداد تھی اور اسی میںان کے اکلوتے صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری بھی رہے۔


مجھے یہ بھی یاد ہے کہ1953ءمیں جب تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا تو مرکز جامع مسجد وزیر خان تھا، تحریک زوروں پر آئی تو مقامی طور پر مارشل لاءبھی لگا اور اعظم خان ایڈمنسٹریٹر متعین ہوئے، مجلس عمل کی قیادت کو گرفتار کیا گیا تو علامہ ابو الحسنات اور سید مودودیؒ سمیت دوسری قیادت بھی گرفتار کر لی گئی اور ان سب کو سنٹرل جیل(اب کیمپ جیل) میں زیر حراست رکھا گیا،ان کی غیر موجودگی میں تحریک کی قیادت مولانا عبدالستار خان نیازی اور امین الحسنات خلیل احمد قادری نے کی، بڑی زبردست تحریک تھی، نوجوانوں نے سینے پر گولیاں کھا کر نعرہ نبوت و رسالت بلند کیا اور پھر یہ دونوں حضرات بھی گرفتار ہوگئے، فوجی عدالت سے ان کے سمیت بعض دوسرے اکابر کو سزائے موت دی گئی، موجودہ کیمپ جیل اور تب کی سنٹرل جیل بڑی وسیع تھی آج جس جگہ شادمان چوک(گول چکر) ہے یہ اس جیل کا چکر تھا یہاں بوڑھ کا ایک بڑا سایہ دار درخت تھا، اس کی چھایوں میںمولانا ابو الحسنات، مولانا مودودیؒ اور دوسرے زیر حراست اکابر بیٹھتے اور ان کے درمیان علمی گفتگو ہوتی تھی، یہیں امین الحسنات سید خلیل احمد قادری کی سزائے موت کی خبر دی گئی تو اکلوتے صاحبزادے کے حوالے سے علامہ ابو الحسنات نے یہ تاریخی الفاظ استعمال کئے ”اللہ کا شکر ہے کہ خلیل کو شہادت نصیب ہو گی“ تاہم بعد ازان کی نہ صرف یہ سب سزائیں ختم ہوئیں بلکہ تمام قیادت کو بھی رہا کر دیا گیا، انہی کی قربانی اور کاوش کا نتیجہ ہے کہ 1973ءکے آئین میں قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار دیئے گئے ہوئے ہیں۔علامہ ابو الحسنات اور ان کے بعد صاحبزادے امین الحسنات سید خلیل احمد قادری بھی سادہ زندگی گذار گئے،ان کے پاس سواری کے لئے کوئی گاڑی (کار وغےرہ) نہیں تھی وہ پیدل چلنے،تانگے کی سواری اور موٹر سائیکل پر بیٹھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے۔ یادیں تو امڈ کر آ رہی ہیں، جگہ کی قلت ہے اس دعا کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ اللہ ان سب کو جوارِ رحمت میں رکھے اور ہم سب کو نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطاءفرمائے، آمین!

مزید :

رائے -کالم -