میرے والدنے اپنے6 میں سے 4بھائیوں کو گوروں کے تشدد سے مرتے دیکھا تھا ایک کو پھانسی دے کر مارا گیا تھا
مصنف : میلکم ایکس( آپ بیتی)
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط :3
ڈراﺅنا خواب
ابھی میں ماں کے پیٹ میں تھا کہ ایک رات ”کوکلکس کلان“ (Kuklux Klan)کے مخروطی کنٹوپ والے چوغے پہنے گھڑ سواروں کا ایک گروہ ہمارے گھر آیا۔ تب ہم نبراسکا (اوماھا) میں رہتے تھے۔ (یہ بات میری ماں نے بعد میں مجھے بتائی) گھڑسواروں نے ہمارے گھر کا محاصرہ کر لیا اور رائفلیں اور شاٹ گنیں لہرا کر میرے والد کو گھر سے نکلنے کے لیے للکارنے لگے۔ میرے والدہ صدر دروازہ کھول کر باہر گئی اور انہیں بتایا کہ وہ اس وقت گھر میں 3 بچوں کے ساتھ اکیلی ہے اور بچوں کا باپ تبلیغ کے سلسلے میں ”مِل واکی“ گیا ہوا ہے۔ کلان کے آدمیوں نے تنبیہی انداز میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”بہتر ہو گا کہ ہم علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ ”اچھے سفید عیسائیوں“ کو یہ بات پسند نہیں کہ ہمارا باپ اوماھا کے علاقے کے کالوں کو ”مارکس گاروی“ کی تعلیمات پھیلاتے ہوئے ”افریقہ کو و اپسی“ کی تبلیغ کرتا پھرے۔ “
میرے والد ”عزت مآب ارل لِٹل“ مارکس آرلئیس گاروی کی تنظیم یو این آئی اے (یونیورسل نیگرو امپروومنٹ ایسوسی ایشن) کے بپٹسٹ منسٹر اور نہایت مخلص منتظم تھے۔
مارکس گاروی، جس کا ہیڈ کوارٹر ہارلم، نیویارک سٹی میں تھا، افریقیوں میں نسلی پاکیزگی (Race purity) اور اپنے اجداد کی سرزمین یعنی افریقہ واپسی کا مبلغ تھا۔ جس نے اسے پوری دنیا میں انتہائی متنازع شخصیت بنا دیا تھا۔
کلان کے آدمیوں نے ہمیں دھمکیاں دیتے ہوئے گھر کے گرد چکر لگانا شروع کر دئیے، وہ مشعلیں لہراتے ہوئے بندوقوں کے بٹوں سے کھڑکیاں توڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
واپسی پر میرے والد یہ سب دیکھ کر سخت مشتعل ہوئے مگر انہوں نے میری پیدائش تک رُکنے اور پھر کہیں اور منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ پتہ نہیں انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ حالانکہ وہ عام کالوں کی نسبت بہت بہادر تھے۔ وہ6 فٹ 4 انچ قامت کے بے حد کالے انسان تھے۔ ان کی ایک آنکھ کسی حادثے میں، جس کا مجھے علم نہیں، ضائع ہو گئی تھی۔ وہ رینالڈز (جارجیا) کے رہنے والے تھے اور مارکس گاروی کی طرح پختہ یقین رکھتے تھے کہ آزادی، خودمختاری اور عزتِ نفس امریکہ میں رہنے والے کالوں کو کبھی حاصل نہیں ہو گی لہٰذا کالوں کو چاہیے کہ امریکہ گوروں کے حوالے کر کے اپنے اجداد کی سرزمین افریقہ چلے جائیں۔
میرے والد اس نظریہ پر اس لیے بھی قوی یقین رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے6 میں سے 4بھائیوں کو گوروں کے تشدد سے مرتے دیکھا تھا بلکہ ایک کو تو پھانسی دے کر مارا گیا تھا۔ ایک بات جو میرے والد نہیں جانتے تھے کہ بقیہ3 بھائیوں میں سے بھی (بشمول میرے والد) صرف ایک، میرے چچا، بستر پر طبعی موت مریں گے۔ ایک چچا سفید فام شمالی پولیس کی گولی کا نشانہ بنیں گے اور وہ خود بھی ایک گورے کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔
مجھے خود یہ یقین ہے کہ میں بھی تشدد کے نتیجے میں غیر طبعی موت مروں گا....اور میں ہمیشہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار رہتا ہوں۔ میں بہن بھائیوں میں ساتویں درجے پر تھا۔ پہلی شادی سے بھی میرے والد کے 3 بچے ایلا، ارل اور میری تھے جو بوسٹن میں رہتے تھے۔ بعد میں میری والد سے شادی کے بعد وِلفرڈ“ پیدا ہوا اور میرے والدین فلاڈلفیا سے اوماھا آ گئے جہاں ہلڈا اور پھر فلبرٹ پیدا ہوئے۔ اس کا بعد میں دنیا میں آیا۔
یہ 19 مئی 1925ءکی بات ہے جب میری ماں نے28 سال کی عمر میں اوماھا کے ہسپتال میں مجھے جنم دیا پھر ہم مِل واکی چلے آئے جہاں ریگی نالڈ پیدا ہوا۔ اسے پیدائشی طور پر ہرنیا کی تکلیف تھی جو ساری زندگی اس کے لیے ایک حد تک معذوری بنی رہی۔
میری ماں ”لوئی لٹل “ گرینیڈا (برطانوی ویسٹ انڈیز) میں پیدا ہوئی، سفید فام لگتی تھی، کیونکہ اس کا ”باپ“ ایک سفید فام تھا۔ ماں کے بال سیدھے سیاہ تھے اور اس کا لہجہ بھی عام کالوں سے نہیں ملتا تھا۔
اس نے کبھی اپنے باپ کو نہیں دیکھا تھا اور وہ زندگی بھر اس کے ذکر سے شرمندگی محسوس کرتی رہی۔ اسی لیے ہمیں اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں۔ اور یقینا اسی وجہ سے میری جلد اور بالوں کا رنگ بھی سرخی مائل بھورا تھا۔ میں سب سے ہلکے رنگ کا تھا۔ (بعد میں بوسٹن اور نیو یارک میں میں نے ایسے لاکھوں کالے دیکھے جو ہلکے رنگ کو پاگل پن کی حد تک سماجی افتخار کی علامت سمجھتے تھے۔ اور مجھے بہت خوش قسمت سمجھتے تھے لیکن مجھے اس عصمت دری کرنے والے کے خون کے ایک ایک قطرے سے نفرت تھی جو میری رگوں میں دوڑ رہا تھا)۔
ہم مِل واکی میں بھی تھوڑا عرصہ ہی رہے کیونکہ میرے والد ایسی جگہ رہنا چاہتے تھے کہ جہاں وہ نہ صرف اپنا کما سکیں بلکہ تھوڑا بہت کاروبار بھی جما سکیں۔ مارکس گاروی کی بنیادی تعلیم یہی تھی کہ خود کو گوروں کی ماتحتی سے آزاد کرو۔ اس کے بعد ہم ”لانسنگ“ مشی گن چلے گئے۔ وہاں میرے والد نے گھر خریدا اور حسبِ سابق مقامی کالوں کے بیپٹسٹ چرچ میں بلامعاوضہ عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی اس کے ساتھ ساتھ وہ ہفتہ بھر یہاں وہاں مارکس گاروی کی تعلیمات بھی پھیلاتے رہتے۔
ابھی انہوں نے دکان بنانے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے شروع کئے ہی تھے کہ کچھ احمق مقامی ”انکل ٹام نیگروز“ نے ان کے انقلابی خیالات کے قصے بڑھا چڑھا کر گوروں تک پہنچانے شروع کر دئیے۔ اب کی بار علاقہ سے نکل جانے کی دھمکی ایک مقامی نفرت پسند سوسائٹی ”دی بلیک لیجن“ (The Black Legion)کی طرف سے آئی۔ وہ لوگ سفید کے بجائے کالے چوغے پہنتے تھے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ میرے والد جہاں جاتے یہ لوگ وہاں پہنچ جاتے اور کہتے کہ ”یہ کالا صرف اس لیے سیاہ فام آبادی سے باہر دکان بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں رہ کر اچھے نیگروز کو ورغلاء اور بہکا سکے۔“ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔
