ایف ایس سی کے امتحانوں سے فارغ ہوئے، ہم نے اس خوشی اور فراغت کو کسی اور انداز سے منانے کا فیصلہ کیا، پہلے سفر پر نکلنا چاہتے تھے وہ بھی جہاز پر

 ایف ایس سی کے امتحانوں سے فارغ ہوئے، ہم نے اس خوشی اور فراغت کو کسی اور انداز ...
 ایف ایس سی کے امتحانوں سے فارغ ہوئے، ہم نے اس خوشی اور فراغت کو کسی اور انداز سے منانے کا فیصلہ کیا، پہلے سفر پر نکلنا چاہتے تھے وہ بھی جہاز پر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:22
ہم لوگ ایف ایس سی کے سالانہ امتحانوں سے فارغ ہوگئے تھے اور اب نتیجے کا انتظار کرنا تھا۔ لیکن میں نے اور غفور نے اس خوشی اور فراغت کو کسی اور ہی انداز سے منانے کا فیصلہ کیا۔ ہم اپنے پہلے سفر پر نکلنا چاہتے تھے اور وہ بھی جہاز پر۔ ہم نے اس سلسلے میں پی آئی اے   سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ہمیں بتایا گیا کہ یہاں سے بذریعہ جہاز قریب ترین شہر راولپنڈی ہے۔ بس پھر کیا تھا ہم نے ٹکٹ خریدے اور ائیرپورٹ جا پہنچے، اور جہاز میں سوار ہوگئے۔ ہم اس دن بہت پُرجوش تھے اور خوش بھی۔ لاہور سے راولپنڈی کا واپسی کرایہ تب30 روپے تھا جو کم از کم ہمارے لیے تو ایک بہت بڑی رقم تھی۔ غفور نے پی آئی اے کے لوگو والا رومال اپنے پاس رکھ لیا جو اپنے پہلے ہوائی سفر کی یاد گار کے طور اس نے کئی برسوں تک اپنے پاس سنبھالے رکھا۔ تب اسی قسم کی معصوم اور بے ضرر سی مہم جوئیاں ہمارے لیے بہت خوشی اور لطف اندوزی کا باعث بنتی تھیں۔ 
اور اب جب کہ میرے پوتے میکائیل نے، جو امریکہ میں پیدا ہوا تھا، پہلی دفعہ پاکستان کا سفر کیا تھا تو وہ صرف 6 ماہ کا تھا۔ اسی طرح میری پوتی نور کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ اب ان بچوں کو بھلا ہمارے جوش و خروش کا کیا علم ہو گا۔ وہ تو یہ جذبات تب ہی محسوس کر سکیں گے جب وہ چاند یا مریخ کا سفر کریں گے۔
ایف ایس سی کا نتیجہ نکل آیا تھا اور میں نے 900 میں سے  675 نمبر حاصل کرلیے تھے اور مجھے یقین تھا کہ مجھے انجنیئرنگ کالج میں داخلہ مل جائے گا۔ انہی دنوں مسلح افواج نے اپنے کوٹے میں سے اسی کالج میں داخلے کے لیے طلبہ کو انٹرویو میں آنے کے لیے کہا۔ مجھے اس پیشکش میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن میرا دوست لطیف چوہدری مسلسل اصرار کر رہا تھا کہ ہم اس موقع کو ضائع نہ کریں اور کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔ میں بے دلی سے راضی ہو گیا، داخلے سے زیادہ مجھے یہاں تجربہ حاصل کرنے کا شوق تھا۔ غرض ہمارا انٹرویو ہوگیا، جس کے فوراً بعد میں نے اسے اپنے اپنے گھر جانے کا مشورہ دیا۔ اس نے ایک بار پھر ضد کی کہ ہم انٹرویو کے نتیجے کا انتظار کرتے ہیں جس کا اسی دن سہ پہر کواعلان کیا جانا تھا۔ جب شام کو نتیجہ آیا تو یہ میرے اس دوست کے لیے انتہائی صدمے والا ثابت ہوا۔ کیوں کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا تھا جب کہ میں منتخب ہو گیا تھا۔   اس کے بعد مجھے مسلح افواج کی طرف سے آئی ایس ایس بی کوہاٹ میں مزید ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے پیش ہونے کے لیے کہا گیا۔ جو ان کا ایک معیاری اور مروجہ طریقہ کار ہے۔ مجھے فوج میں جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی پھر بھی نہ چاہتے ہوئے میں یوں ہی لطف اندوز ہونے کے لیے وہاں جا پہنچا۔ وہاں گزارے گئے 4 دن بہت ہے مصروف اور تھکا دینے والے تھے۔ اس دوران مجھے کئی تحریری امتحانوں کے علاوہ  مختلف اقسام کی جسمانی اور ذہنی رکاوٹیں سر کرنا تھیں اور پھر کچھ انٹرویو بھی ہونے تھے۔
وہاں پہلے دن ہی اعلیٰ الصبح دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھول کر باہر جھانکا تو وہاں ایک بیرے کو ہاتھوں میں ٹرے لیے کھڑا پایا، جن میں چائے کے کئی کپ موجود تھے۔ ابھی میں اتنی صبح جگا دینے پر حیرت زدہ ہی کھڑا تھا کہ اس نے یہ کہہ کر کہ یہ بیڈ ٹی ہے مجھے چائے پیش کردی۔ ہر چند کہ میں اس قسم کی عیش و عشرت والی زندگی کا عادی نہیں تھا، میں نے اس سے چائے کا کپ تھام لیا۔ ہمارے گھر میں چائے اتنے اہتمام اور تسلسل سے نہیں پی جاتی تھی، البتہ جب میاں جی کی طبیعت خراب ہوتی تھی تو ان کے لیے چائے بنتی تھی۔ حالانکہ بعد ازاں میں نے کبھی کبھار چائے پینی شروع کردی تھی،لیکن ساری زندگی نہار منہ چائے یعنی بیڈ ٹی پینے کا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -