تعلیم کی ارزانی اور میرادل ِ باغ باغ
صبح دم جب مرزا غالب کے دروازہءخاور کے ساتھ ہی میرے گھر کا دروازہ کھلتا ہے تو اخبارات کی فائل سب سے پہلے دہلیز پر پڑی ہوتی ہے۔اسے دیکھتے ہی دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔
گزشتہ شب کی وہ افسردگی اور دل گرفتگی جو الیکٹرانک میڈیا والے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور جو کبھی کہتے ہیں کہ ایران سے کوئٹہ آنے والے زائرین کی فلاں بس پر حملہ ہوا ہے اور اتنے درجن لوگ لقمہ ءاجل بن گئے ہیں یا اسی روز راولپنڈی کے آر اے (RA)بازار، نزد جی ایچ کیو میں ایک خودکش دھماکے میں اتنے درجن فوجی اور سویلین مارے گئے ہیں یا کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے والی تین ورکرز کو قتل کردیا گیا ہے تو اگلی صبح امید ہوتی ہے شائد رات گئے اس فسردگی کا کوئی حل نکل آیا ہو جو پریس میڈیا کی وساطت سے نصیب ہو جائے۔ لیکن جب اگلے روز صبح دم پریس میڈیا کے صفحہ اول پر نگاہ جاتی ہے تو تمام بڑی چھوٹی سرخیاں بھی انہی گزشتہ شب والے حادثات و سانحات کا اعادہ ہوتی ہیں۔آخری صفحے کا بھی یہی عالم ہوتا ہے۔
اخبار کی تصاویر میں کہیں وزیراعظم ہسپتال میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کررہے ہوتے ہیں تو کہیں صوبائی وزیراعلیٰ اپنے صوبے کے کسی شفاخانے میں پڑے زخم زخم ہونے والوں کے کاندھوں پر دستِ شفقت پھیر رہے ہوتے ہیں۔ ان اکابرین ِ حکومت کی انسان دوستی، رحمدلی اور بسمل نوازی دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ ان کو ہزار برس سلامت رکھے اور ہر برس کے دن 50ہزار ہوں۔ہاں کبھی کبھار ہمارا دماغِ خانہ خراب یہ بھی سوچتا ہے کہ ہمارے یہ زعمائے سیاست جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے، وہ اتنے بے بس اور لاچار کیوں ہیں ۔اور ہسپتالوں کا رخ کرنے کی بجائے ہسپتالوں میں پہنچانے والے شقی القلب دہشت گردوں کا رخ کیوں نہیں کرتے۔ لیکن پھر سربگر یباں ہوتا ہوں تو نجانے کہاں سے آواز آتی ہے کہ کسی گدائے گوشہ نشیں کا کیا حق ہے کہ وہ ان مقتدر اصحاب کے رموزِ مملکت جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرے۔ ہم ناچار دلِ برخود غلط کو حافظ شیرازی کا وہ شعر سناتے ہیں، جس کا اردو ترجمہ ہے: ” غم نہ کر کہ ایک نہ ایک دن گمشدہ (حضرت)یوسف ؑ، واپس کنعان ضرور آئے گا۔ اور ایک نہ ایک دن یہ تنگ و تاریک جھونپڑی، گلستان ضرور بنے گی۔ غم نہ کر۔“
یوسفِ گم گشتہ باز آئد بہ کنعاں غم مخور
کلبہ ءاحزاں شود روزے گلستاں غم مخور
معلوم ہوتا ہے کہ بعض قارئین کرام مجھ پر یقین نہیں کریں گے کہ شب کی وہ افسردگی کہ جو الیکٹرانک میڈیا کی عطا کردہ ہوتی ہے وہ دن کی اس پژمردگی کے سامنے ماند پڑنے لگتی ہے جو پریس میڈیا کے اس بنڈل کو دیکھ کر نگاہوں تلے تیرنے لگتی ہے۔سوچتا ہوں:
وہی پوشیدہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
لیکن اس کے علاج کے لئے آبِ نشاط انگیز کہاں سے لاﺅں؟علاوہ ازیں خوش و خرم ہونے کے اور امکانات بھی اسی اخباری فائل کے توسط سے روشن ہو جاتے ہیں اور دل باغ باغ ہونے لگتا ہے۔
ان روشن امکانات اور پُرمسرت لمحات میں سے پہلا لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جونہی اخباری فائل کھولتے ہیں، فرفر کرتے دس بارہ رنگین پوسٹر اور بروشرز میز پر گر جاتے ہیں جو سب کے سب ریشمی کاغذ پر طبع ہوتے ہیں اور رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دیدہ زیب اور جاذبِ نگاہ بھی ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک تو ہمارے لاہور کینٹ ایریا میں دی مال آف لاہور کے دکانداروں کی طرف سے شائع کردہ ایک ”گرینڈ ارزانی پیکیج“ ہوتا ہے جو مختلف اشیائے صرف کی ایک دیدہ زیب تصویر کے ساتھ ایک سرسبز و شاداب دوشیزہ کو بٹھا کر (یا لٹا کر) زیورِ طبع سے آراستہ کیا جاتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اشیائے صرف کی پرانی اور نئی قیمتوں کا موازنہ بھی ان کے حسنِ انتخاب کا ایک بہت اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے۔ یعنی جوتے کے ایک جوڑے کی سابقہ قیمت 7599/- کو (خود ہی) کاٹ کر نئی اور ارزاں قیمت 7299/- روپے لکھی ہوتی ہے۔اگر آپ نے آج تک کسی خوبرور حسینہ کے ہاتھ میں کوئی دیدہ زیب گرگابی یا پاپوش وغیرہ اب تک پکڑی نہ دیکھی ہو تو اسے دیکھ کر میری طرح آپ کا جی بھی مچل اٹھے گا کہ ابھی اور اسی وقت طوافِ کوئے ملامت کو چلا جائے۔
البتہ جب جیب کی طرف نگاہ جاتی ہے تو حسرت و یاس کا اسی طرح کا ایک دوسرا عالم طاری ہونے لگتا ہے جو گزشتہ شب طاری ہوا تھا۔ ہم فوراً اس بورژوائی خیال کو ذہن سے جھٹک کر دل، باغ باغ کر لیتے ہیں۔
مال آف لاہور کی گرین ویلی کے اس چار صفحات والے رنگین ریشمی پوسٹر کے ساتھ ہی چار عدد سنگل پیج (Single Page) ریشمی رنگین پوسٹر بھی ہوتے ہیں۔ یہ پوسٹر مختلف ایجوکیشن اکیڈیمیوں کی طرف سے آئے ہوتے ہیں۔طباعت و نفاست کا نہایت اعلیٰ معیار سامنے پڑا ہوتا ہے۔سب تحریریں انگریزی زبان میں ہوتی ہیں جو ہم جیسے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھے ہوئے اور اردو میڈیم سکولوں کے فیضیاب بزرگوں کی سمجھ میں کم کم آتی ہیں۔ ہاں یہ بات دوسری ہے کہ اس تحریر دل پذیر میں ایک فقرہ بھی ایسا نہیں ہوتا جو ہمارے پرانے دور کی انگریزی کی گرفت میں آ سکے۔عجیب و غریب محاورات، عجیب تر الفاظ اور غریب تر ترکیبات سے ”مزین“ اس تحریر کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی نااہلی کا شدید احساس ہونے لگتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے ہم نے 29،30برس فوج میں افسری کے زعم میں جو انگریزی پڑھی،لکھی یا بولی تھی، وہ صرف جھک ماری تھی اور وہ اب ان نئے انگریزی بروشروں کی اس نئی انگریزی سے بری طرح شکست کھا رہی ہے کیونکہ اس پر اساتذہ کے پینل کی جو کوالی فیکیشنز درج ہوتی ہیں وہ اتنی مرعوب کن اور غیر ملکی ڈگریوں سے لدی لدائی ہوتی ہیں کہ ان کے سامنے دم مارنے کی جرات نہیں کی جا سکتی۔ہاں کھسیانا ضروری ہوا جا سکتا ہے۔سو قارئین گرامی القدر! ہم کھسیانی ہنسی ہنستے ہیں اور باغ باغ ہونے لگتے ہیں....ہم نے کونسا اے (A)لیول یا او(O) لیول کیا ہوتا ہے؟
ہمارا ایک نواسہ عزیزی محمد اسحاق چار سال کا ہے۔اسے ایک انگلش میڈیم سکول میں داخل کروائے کوئی چند ماہ ہی ہوئے ہیں۔اس کی فیس داخلہ اور ماہانہ فیس کا ٹوٹل نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہوگا۔وہ اس برس پلے گروپ میں ہے، اگلے برس انشاءاللہ نرسری میں جائے گا، اس سے اگلے برس مزید انشاءاللہ پریپ میں ہوگا اور پھر چوتھے برس ”کچی پہلی“ جماعت کا رخ کرے گا۔ تب تک وہ سات برس کا ہو چکا ہوگا اور ”پکی پہلی“ تک پہنچتے پہنچتے، ماشاءاللہ اس کی عمر آٹھ برس ہو چکی ہوگی۔سوچتا ہوں ہم پونے پانچ برس کے تھے کہ براہ راست ”پکی پہلی“ میں چلے گئے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ہر مضمون میں کمزور تھے۔اسی لئے تو اساتذہ سے مار کھایا کرتے تھے۔ آج آپ اگر ٹیچر ہیں تو کسی بچے کو انگلی لگا کر دکھائیں، فوراً ایف آئی آر کاٹی جائے گی اور آپ کا حشر دیدنی بنا دیا جائے گا۔ تبھی تو قوم ترقی و خوشحالی کی اس منزل میں ہے۔ پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ اتنا خرچہ کرکے کسی بچے کو اگر پڑھایا جا رہا ہو تو اس کو پرائیویٹ اکیڈمی میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟
کسی نادان اور جاہل دوست نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ وہی اساتذہ جو صبح کسی سکول میں پڑھاتے ہیں، شام کو انہی اکیڈیمیوں میں جا کر فجر اور ظہر کی اکٹھی ”قضا“ پڑھتے ہیں۔ دگنا ثواب ملے نہ ملے دگنی جیب تو ان کی بھاری ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس دوست کی افواہ کی تصدیق کی تو نہایت شرمندگی ہوئی۔ثابت ہوا جاہل اور نادان وہ نہیں ہم ہیں۔ہمیں ہی اپنی پارسائی کا ناجائز زعم تھا جو پاش پاش ہوگیا۔
ہم نے اپنی بیٹی سے بات کی اور کہا: ”اپنے بچے کو فوراً کسی اکیڈمی میں داخل کرا دو، ورنہ سخت پچھتاﺅ گی“۔ اس نے جواب دیا: ”بابا! میں تو سارا دن اپنے اسحاق کے ہوم ورک میںلگی رہتی ہوں۔اس کی ٹیچر اس طرح کے پراجیکٹ دے دیتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے پی آئی اے کی نجکاری اسحاق ہی سے کروائی جانے والی ہے“.... میں یہ سن کر اور بھی باغ باغ ہوجاتا ہوں۔
اور قارئین! آج صبحدم (22جنوری 2013ئ) تو مجھے اخباروں کا بنڈل جھاڑنا بھی گلے کا ہارمعلوم ہوا کہ ایک موقر انگریزی روزنامے میں پورے کے پورے جہازی سائز کے 60صفحات ” ایجوکیشن سپلی منٹ“ پر تھے۔اخبار سے الگ کرکے اس ”بنڈل“ کو تولا تو وزن 700گرام نکلا۔حیرت ہوئی کہ ملک میں تعلیمی اداروں کا اتنا بڑا سیلاب، بیرون ملک بھجوانے کے اتنے کثیر النوع مواقع اور انتظامات، پورے پورے اخباری صفحے کے اتنے زیادہ رنگین اشتہارات، ان کی انگریزی، ان کی لے آﺅٹ (Lay Out) ان کی ڈیزائننگ، ان کی کلر سکیم اور ان کی ترغیبات کے اتنے بے بہا چونچلے!
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ ”یہ“ صحرا نشیں کیا ”ہیں“۔
جہانگیر و جہاں دار و جہاںبان و جہاں آرا
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم و تعلم کا معیار کم تر یا فروتر ہے؟یہ سب کر توتیں کافروں کی ہیں.... ہماری شرحِ خواندگی جان بوجھ کر کم بتائی جاتی ہے تاکہ دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو....بکواس کی جاتی ہے کہ یہ اکیڈیمیاں اور ادارے سادہ لوح لوگوں سے رقمیں بٹورتے ہیں اور انہیں بیرون ملک بھجوانے کے بہانے اپنا بینک بیلنس بڑھاتے ہیں.... جھوٹ بولا جاتا ہے کہ یہ سب لوگ بیرونی ممالک سے واپس آکر پاکستان کے اعلیٰ اداروں میں ملکی ترقی کا باعث بنتے ہیں....غلط بیانی کی جاتی ہے کہ باہر جا کر یہ طالب علم وہی کرتے ہیں جو مشرق وسطیٰ کی خلیجی ریاستوں میں پاکستان کی غیر ہنرمند (Un-Skilled)لیبر کرتی ہے اور اونچے سفید کالر جاب کی چکا چوند دل میں سمائے، آخرکار خاکی کالر یا بلیک کالر لیبربن جانے پر مجبورہو جاتی ہے!.... ان بہتان باندھنے والوں کا منہ بند کرنا چاہیے اور تہمت لگانے والے ان کافروں کے خلاف ہماری سمندر پار وزارت کے کرتا دھرتاﺅں کو ایکشن لینا چاہیے۔ آخر ملک میں اگر انگریزی زبان کی اتنی پذیرائی کے سامان ہو رہے ہیں تو یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے لوگ باہر جا کر ڈرائیوری کی معراج کی تمنا کیوں کرتے ہیں؟
خدا لگتی بات یہ ہے کہ مملکت ِ خداداد میں تعلیم کی یہ ارزانی اور فراوانی دیکھ کر دل باغ باغ نہ ہو تو کیا ہو؟
