بھارتی معاشرے میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز، آج بھی ایک حقیقت ہے، بھارتی اخبار کا دعویٰ
ممبئی (اے پی اے )بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارت میں ذات پات کا نظام آج بھی ایک مسئلہ ہے اور صدیوں سے چلی آ رہی سماجی روایات کی خلاف ورزی کرنے پر لوگوں کو سزاو¿ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ آہستہ آہستہ اِن رجحانات میں تبدیلیاں ضرور آ رہی ہیں۔بھارت کی ایک قابل عزت یا اونچی مانی جانے والی ذات سے تعلق رکھنے والی تیلیکم نے جب بارہ برس قبل ایک دلت کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھے کا فیصلہ کیا، تو وہ اِس کے لیے تیار تھی کہ ا±سے اپنے رشتہ داروں سمیت کئی دیگر افراد سے قطع تعلقی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ا±س کے شوہر کتھیر کا تعلق دلت ذات جنہیں اچھوت قرار دیا جاتا ہے۔ دلتوں کو ذات پات کے اِس نظام میں سب سے نچلا مقام حاصل ہے۔
اور اِس ذات سے تعلق رکھنے والوں کو معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں اپنے سے مختلف ذات والوں کے ساتھ رشتے کرنے پر آج بھی لوگوں کو سخت سے سخت سزاو¿ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگرچہ بھارتی قانون کے مطابق مختلف ذاتوں میں شادیوں کے خلاف کسی بھی قسم کا امتیاز غیر قانونی فعل ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں ایسے جوڑ کی مخالفت عام ہے۔ بھارتی معاشرے میں مثبت تبدیلیوں اور متعدد شعبوں میں ترقی کے باوجود روایات آج بھی زیادہ اہم مانی جاتی ہیں۔ کئی واقعات میں خلاف ورزی کرنے والوں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دیہی علاقوں میں یہ مسائل اور زیادہ گھمبیر ہیں۔ان حقائق کے باجود تیلیکم کے تجربات ذرا مختلف رہے۔ بھارت میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2012ءمیں دلت ذات سے تعلق رکھنے والوں کی دیگر ذات والوں کے ساتھ ہونے والی رجسٹرڈ شادیوں کی تعداد 9,623 رہی، جو اِس سے پچھلے سال یعنی 2011ءمیں 7,617 تھی۔اِس صورتحال کو سمجھاتے ہوئے لکھنو¿ شہر کے گیری انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایک پروفیسر سرینواس گولی کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ والدین اپنے بچوں کے انتخاب سے اتفاق رائے رکھتے ہوں تاہم معاشرتی دباو¿ کے سبب وہ ا±نہیں اپنے مرضی کے مطابق قدم اٹھانے نہیں دیتے۔
