چولی کے پیچھے کیا ہے ؟ جیسے گانے نہیں لکھ سکتا ‘انڈین گانوں میں فحاشی پر جاوید اختر برہم
نئی دہلی(آئی این پی)کے نامور شاعر اور فلمی گیت لکھنے والے جاوید اختر نے نئی فلموں کے گانوں میں فحاشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے جے پور لٹریچر فیسٹول پر زور دیا کہ وہ اس معاملہ کو شدت کے ساتھ اٹھائے۔آج کے زمانے میں بے حد فحاشی ہے۔ جب آپ کسی چیز کے غیر قانونی ہونے پر احتجاج کر سکتے ہیں تو فحاشی کے خلاف ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیاکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاوید اختر نے بدھ کو فیسٹول کے ایک سیشن \'گاتا جائے بنجارا: فلمی گانے، اردو، ہندی ، ہندوستانی\' میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ گانوں کے بول میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے گانوں میں \' اچھائی کا عنصر\' موجود نہیں، اور یہی عنصر دہائیوں تک صدا بہار رہنے والے گیتوں کی ایک وجہ ہے۔
جاوید نے انڈین فلمی صنعت کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں غزل اور دوسری ثقافتی موسیقی مسلسل فروغ پا رہی ہے۔لفظ کسی بھی گانے کی جان ہوتے ہیں اور یہی حتمی بات ہے۔ صرف اچھے لکھے ہوئے گانے ہی یاد رہتے ہیں ۔ماضی میں ایک عام آدمی موسیقی اور گانوں سے زندگی کا فلسفہ سیکھتا تھا۔ پہلے سمجھ بوجھ والے گانے ہوتے تھے۔ ان میں سماجی انصاف اور انسانی اقدار کا عنصر ہوتا ہے لیکن اب یہ عنصر کہیں کھو گیا ہے اور بہت افسوس کی بات ہے کہ کوئی اس حوالے سے سوچتا نہیں۔جاوید نے سیشن میں موجود حاضرین پر زور دیا کہ وہ فحاشی کے خلاف آواز اٹھائیں۔انہوں نے 1993 کی بولی وڈ فلم \'کھل نائک\' کے مشہور گانے \'چولی کے پیچھے کیا ہے\' اور دوسرے گانوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے حد دباؤ کے باوجود کبھی بھی ایسے بول نہیں لکھ سکتے