سانحہ چار سدہ کی کڑیاں افغانستان و بھارت سے جا ملیں

سانحہ چار سدہ کی کڑیاں افغانستان و بھارت سے جا ملیں
 سانحہ چار سدہ کی کڑیاں افغانستان و بھارت سے جا ملیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امن کے دشمنوں نے خطے میں استحکام کی پاکستانی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ناپاک سازش افغانستان میں تیار کی۔سانحہ چار سدہ کے بارے میں انکشاف ہواہے کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرانے میں ’’را‘‘ کے ٹرینڈ دہشت گرد عمر امین اور طارق گیندر ملوث ہیں۔ دہشت گرد افغانستان سے آئے۔ حملے کی پلاننگ اور عمل میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ٹرینڈ عمر امین اور طارق گیندر شامل ہیں ،جنہوں نے ازبک دہشت گردوں کو مذموم مقصد کے لئے استعمال کیا۔ سانحہ چار سدہ کی سازش افغانستان میں بھارتی مدد سے تیار ہوئی۔ کالعدم تحریک طالبان کے امیر مولوی فضل اللہ کے دست راست کمانڈر کی کال ٹریس ہوئی ہے، جس کے مطابق کمانڈر نے بھارتی قونصلیٹ سے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے لئے تیس لاکھ بھارتی روپے حاصل کئے۔ کالعدم تحریک طالبان کے مذکورہ کمانڈر اور حملہ آوروں کے درمیان فون نمبر 0093774022167، 0093782552489 اور 0003774262593 کے ذریعے مسلسل رابط رہا۔ یہی کمانڈر دہشت گردوں کو افغانستان میں بیٹھ کر کنٹرول کر رہا تھا۔ حکومت پاکستان نے انکشافات کے بعد معاملہ افغان حکومت کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
سانحہ چار سدہ کے بعد پاکستان نے افغان سموں کے پاکستان میں سگنل روکنے کے لئے افغان حکومت سے معاہدے کا فیصلہ کر لیاہے۔جلد ہی اس مقصد کے لئے افغان حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی(پی ٹی اے)کے مطابق پاکستان میں افغان موبائل کمپنیوں کی رومنگ بند کر دی گئی ہے، لیکن بارڈر کے قریب افغان سرزمین پر لگے ٹاورز کے سگنل پاکستان میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے افغان سمیں پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔ معاہدے کے بعد پاکستان میں افغان سموں کے استعمال کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے گا، جبکہ پاکستانی سموں کو بھی غیر قانونی طور پر افغانستان میں استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سانحہ چار سدہ کے ذمہ دار دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے افغان قیادت سے رابطہ کرلیا ہے۔ آرمی چیف نے افغان قیادت سے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے تعاون طلب کیا تاکہ دہشت گردی کے واقعے میں ملوث مجرموں تک پہنچا جا سکے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیاں سب کے سامنے ہیں۔ دہشت گردوں کی زیادہ تربیت گاہیں ختم کی جا چکی ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد سر حد پار چلے جانے والے دہشت گرد ا ب وہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ ایک دہشت گرد کے مرنے کے بعد بھی اس کے فون پر کالز آ رہی تھیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور معاونت دینے والوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وفاقی حکومت دہشت گردی کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھا کر بھارت اور افغانستان سے کھل کر بات کرے اور وہ اپنی سرحدوں سے دہشت گردوں کی آمد بند کر کے دہشت گردی کے خاتمے میں کردار ادا کرے۔ چار سدہ، پشاور حملوں میں ’’را‘‘ ملوث ہے۔ سانحہ چار سدہ کے بعد اب ایک اے پی سی کی ضرورت ہے۔ دہشت گرد سرحد پار کرکے آتے ہیں طورختم کا راستہ کھلا ہے،جہاں سے لوگ بغیر پاسپورٹ آتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ سرحد سیل ہونی چاہئے۔ افغان حکومت سے پوچھا جائے کہ وہ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو پھر کوئی دوسرا راستہ بتایا جائے تاکہ ایسے واقعات سے نمٹا جا سکے۔ حملے میں جوبھی ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ سیاسی رہنماؤں نے باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ حملہ بھارتی وزیر دفاع کی دھمکیوں کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ رحمن ملک نے کہا حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کروایا ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کو حملے کی دھمکی دی تھی۔ شیخ رشید نے کہا پاکستان میں جتنی بھی جگہوں پر حملے ہوئے، ان میں بھارت ملوث ہے۔ ہمیں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ختم کرنا ہو گا۔ حافظ سعید نے کہا کہ حملہ بھارتی وزیر دفاع کی دھمکیوں کا نتیجہ نظر آ رہا ہے، جس میں بھارت سرکار ملوث ہے۔ بھارت کے بارے میں کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں۔


اصل غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ جو دہشت گرد افغانستان میں جا کر اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں اور وہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں، اْن کے خلاف موثر کارروائی کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ کام افغان حکومت اور فورسز کے تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس سارے معاملے کو افغان حکومت کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ برس آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کے بعد بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور اس دورے میں افغان حکومت کو ایسے ثبوت مہیا کئے گئے تھے کہ جن دہشت گردوں نے سکول پر حملہ کیا ،وہ افغانستان سے آئے تھے۔ افغان حکومت اگر اس وقت موثر کارروائی کر کے دہشت گردوں کو گرفتار کرتی یا ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کی کوشش کرتی تو چار سدہ کے سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ ان دونوں سانحات میں اگر طریقِ واردات میں مماثلث پائی گئی ہے، یعنی دہشت گرد عقبی دیوار سے کود کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور اے پی ایس کے انداز میں طلباء کو گھیر کر نشانہ بنایا تو یہ مماثلث بھی ہے کہ اس بار بھی دہشت گرد افغانستان سے آئے اور ان کے سہولت کار بھی وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایسی وارداتوں کو مکمل طور پر روکنے کے لئے ضروری ہے کہ افغان حکام پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں، اور دلجمعی سے حکومتِ پاکستان کا ساتھ دیں۔ یہ شواہد افغانستان میں موجود نیٹو فورسز کے بھی حوالے کئے جا سکتے ہیں اگر اْن کا تعاون حاصل کر کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے تو کامیابی ملنے کا امکان ہے۔

مزید :

کالم -