یہ دہشت گردی سے بڑا معاملہ ہے

یہ دہشت گردی سے بڑا معاملہ ہے
یہ دہشت گردی سے بڑا معاملہ ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارا اتفاق رائے ہے کہ دہشت گردی ایک پرامن ،ترقی یافتہ اورخوشحال پاکستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دہشت گردی کا سب سے خوف ناک پہلو یہ ہے کہ یہ ہمارے پیاروں کی جان لے لیتی ہے، اب تک ساٹھ سے ستر ہزار زندگیاں ہم اس عفریت کی نذر کر چکے ہیں۔ہم سب اس کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہیں کہ ہم پاکستانیوں کی زندگیاں بچانا چاہتے ہیں لیکن اگرمرجانے والوں کی عمر کو نظرانداز کر دیا جائے تو پاکستان میں دہشت گردی سے بھی ایک بڑا مسئلہ موجود ہے جوکئی گنا زیادہ سنگینی کے ساتھ پاکستانیوں کو زندگی سے محروم کر رہا ہے مگر نہ تو اس حوالے سے حکومتوں کے پاس کوئی ایجنڈا، کوئی حکمت عملی اور کوئی یقین دہانی موجود ہے اور نہ ہی یہ ایشو میڈیا کی توجہ حاصل کر پا رہا ہے۔ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں یومیہ 7200 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں اور مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔طبی جریدے دا لانسٹ کی گذشتہ منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2015 میں 26 لاکھ بچے مردہ حالت میں پیدا ہوئے ہیں اور ان میں سے نصف کی موت زچگی کے عمل کے دوران ہوئی، مردہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 98 فیصد کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک سے تھا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 186 ملکوں میں مردہ پیدا ہونے والے بچوں کی شرح سب سے زیادہ پاکستان میں ہے جہاں ہر ایک ہزار بچوں میں سے اوسطاً 43.1 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔پاکستان کے علاوہ نائیجیریا، چاڈ، نائیجر، گنی بساؤ، صومالیہ، سینٹرل افریقن ریپبلک، ٹوگو اور مالی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مردہ بچے پیدا ہونے کی سب سے کم شرح آئس لینڈ میں ہے جہاں ایک ہزار میں سے اوسطاً 1.3 بچے مردہ پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ڈنمارک ہے جہاں یہ شرح 1.7 ہے۔سب سے کم مردہ بچوں کی پیدائش والے ممالک کی فہرست میں فن لینڈ، ناروے، نیدرلینڈز، کروئیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، پرتگال اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔دا لانسٹ کے ایڈیٹرز رچرڈ ہورٹن اور ادانی سماراسکرا نے اس رپورٹ کے بارے میں کہا ہے ’اصل خوفناک بات یہ ہے کہ مردہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 13 لاکھ بچے زچگی کے بعد مرتے ہیں، ’یہ بات کہ زچگی کے وقت یہ بچے زندہ ہوتے ہیں اور پیدائش کے چند گھنٹوں میں سہولیات مہیا نہ ہونے کے باعث ان کی موت ہو جاتی ہے۔ یہ ایک عالمی سطح کا سکینڈل ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔‘ یاد رہے کہ 2014 میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے 2035 تک ایک ہزار بچوں میں سے 10 یا اس سے کم مردہ بچے پیدا ہونے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس رپورٹ کو ہمارے میڈیااور حکومتوں نے بری طرح نظرانداز کیا ہے۔


اس سے پہلے سیو دی چلڈرن نامی ایک اور تنظیم بھی اس بارے ایک خوفناک رپورٹ جاری کرچکی ہے۔دو برس پہلے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں پیدائش کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی تین لاکھ بچے مر جاتے ہیں جو دنیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کا انتیس فیصد ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو بھارت سے بہت پیچھے دکھایا گیا ہے، پاکستان میں ہر برس پیدائش کے ایک دن کے اندر ساٹھ ہزار بچے مرنے کی تعداد بیان کی گئی۔میرا کہنا یہ ہے کہ پاکستا ن بچوں کو مارنے میں بھارت سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے۔ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ اوربھارت کی آبادی سوا ارب تصور کی جا سکتی ہے، بھارت کی آبادی تقریباً سات گنا زیادہ قرار پائی اور جب ہم نے ساٹھ ہزار کو سات سے ضرب دی تویہ تعداد چار لاکھ بیس ہزار بن گئی لہذا ہمیں دنیا بھر میں آبادی کے تناسب سے سب سے آگے قراردینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہماری نظر میں دہشت گردی ایک بڑاایشو ہے جس میں اب تک ہم ساٹھ ہزار زندگیوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ میں دہشت گردی کے عفریت کی خوف ناکی کوکم نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر اہمیت زندگیوں کی ہی ہے تو ہم ہر سال ساٹھ ہزار زندگیاں صحت کے شعبے میں بیڈ گورننس پر قربان کر رہے ہیں۔


مرنے والوں میں صرف بچے ہی تو شامل نہیں اور ایشو صرف مرجانا تو ہی نہیں ہے،دہشت گردی میں لوگ معذور بھی تو ہوتے ہیں۔پاکستان میں ابھی تک پولیو بھی موجود ہے ، گذشتہ برس پنجاب میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا مگر جب میں فاٹا ، خیبرپختونخواہ ،سندھ اوربلوچستان کی طرف دیکھتا ہوں تو کیسے انکار کر سکتا ہوں کہ وہاں ہمارے پھول جیسے بچے زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم ڈینگی کے بعد سوائن فلو پر شور مچا رہے ہیں۔ سوائن فلو کے چند درجن مریض ہی اب تک دریافت ہوئے ہیں۔ میںیہ نہیں کہتا کہ ہمیں ڈینگی پر شور نہیں مچانا چاہئے تھا سوائن فلو کے خطرے کی رپورٹنگ نہیں کرنی چاہئے مگر کیا ہم جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی کتنے مریض پیدا کر رہی ہے اور اس کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کتنی ہے، یہ تعدادبھی سالانہ ہزاروں نہیں، لاکھوں میں ہے۔ ہمارے معاشرے میں شوگرکا مرض کیا تباہی مچا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کی مریضوں کی تعداد کیا ہے۔ دل کے مریضوں کی تعداد بھی ڈسکس کی جاسکتی ہے مگر ان کو بھی رہنے دیں، میرے سامنے 2014 کے اعداد و شمار ہیں۔ا س ایک برس میں، میرے وطن میں، ایک لاکھ چوالیس ہزار بچے صرف نمونیا اور اسہال کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، اکانوے ہزار بچے نمونیا سے اور تریپن ہزار بچے اسہال کے مرض کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے گئے، کیا یہ دہشت گردی سے بھی خوفناک معاملہ نہیں ہے۔ میں ان اعداد وشمار کو حیرت سے دیکھ رہا ہو ں کہ پاکستان میں یہ کوئی سکینڈل نہیں ہے۔ میرے سامنے وفاقی اور صوبائی وزرائے صحت کی جو فہرست ہے اس میں یہ سب نان پروفیشنل لوگ ہیں اور جو ان کے ساتھ پروفیشنل لوگ بھی ہیں، ان کے اپنے مفادات ہیں۔ چاروں صوبوں میں صحت کے محکموں میں پوسٹنگ ، ٹرانسفر اور پروموشنز کے ایشوز عوام کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے زیادہ اہم اور چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔


ابھی میں تھر کی بات نہیں کر رہا جہاں جنوری کے بائیس دنوں میں ہی چوراسی بچے ہلاک ہو چکے۔ کیا یہ جنوری کے مہینے میں دہشت گردی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہلاکتیں نہیں ہیں؟ میں اس پر زیادہ اس لئے نہیں کہوں گا کہ یہ معاملہ کسی حد تک سیاسی بن چکا اور میں اس وقت سیاست پر بات کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیں۔اگر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں، میڈیا، فوج اور دیگر ادارے دہشت گردی پر صرف اس لئے زیادہ توجہ دے رہے ہیں کہ دہشت گرد معصوم اور بے گناہ لوگوں کی زندگیاں لے رہے ہیں تو پھر میرے خیال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ضائع ہونے والی زندگیوں سے کہیں زیادہ زندگیاں ہر برس فیصلہ سازوں کی کم نظری ، کم عقلی اور نااہلی کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں مگر ہم اس نقصان کو دیکھ نہیں پا رہے، سن اور سنا نہیں پا رہے، محسوس نہیں کر پا رہے۔

مزید :

کالم -