سیاسی تحریکوں اور جوڑ توڑ کا مرکز، بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے دفتر کا نام و نشان مٹ گیا

سیاسی تحریکوں اور جوڑ توڑ کا مرکز، بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(شہزاد ملک، تصاویر عمر شریف)بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے زیر استعمال رہنے والا پی ڈی پی اور اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کابوہڑ والا چوک میں واقع مرکزی آفس ماضی کا ایک حصہ بن کررہ گیا ہے اور اس تاریخی آفس کا کچھ حصہ تو اورنج لائن ٹرین کے ترقیاتی کاموں کی نذر ہو گیا اور باقی بچ جانے والے کچھ حصے میں لنڈے بازار کے لوگوں نے اپنے زیر استعمال کر لیا ہے یوں ایک قدیمی اور تاریخی سیاسی دفتر جس میں ملک کے سابق وزرائے اعظم ‘سابق وزرائے اعلیٰ اور سابق گورنرز سمیت موجودہ حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر وزٹ کیا کرتی تھی وہ آفس اب ماضی کی ایک یادگار جگہ کا حصہ تو بن گیا ہے لیکن اس مقام کو اب شائد تاریخ میں تو یاد رکھا جائے گا لیکن اس کی نشانیاں مکمل طور پر ختم ہو گئی ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے علاقے بوہڑ والا چوک میں سنئیر سیاست دان مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان جنہیں سیاست دانوں کی طرف سے بابائے جمہوریت کا لقب بھی ملا تھا انہوں نے یہاں پر اپنی سیاسی جماعت پی ڈی پی کا آفس قائم کررکھا تھا اور اسی آفس میں انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف اتحاد برائے بحالی جمہوریت(اے آر ڈی ) کا قیام وجود میں لایا جس میں اس وقت کی جو دو بڑی سیاسی جماعتیں شامل تھیں وہ دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اس وقت حکمرانی کے مزے لے رہی ہیں اور اسی جگہ پر واقع پی ڈی پی کے مسمار شدہ آفس میں اس وقت کی جلا وطن لیڈر شپ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف ٹیلی فونک خطاب بھی کیا کرتے تھے اور مختلف اوقات میں مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان سے الگ الگ ٹیلی فونک مشاورت بھی کیا کرتے تھے اس طرح سے یہ مسمار شدہ آفس ملک میں چلنے والی ہر سیاسی تحریک کا ایک بانی ہیڈ کواٹر مانا جاتا تھا اور اس وقت کے حکمرانوں کی اس آفس کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ بھی ہوا کرتی تھی چونکہ یہ آفس ایک کرائے کی عمارت میں بنایا گیا تھا مرحوم کی رحلت کے بعد پی ڈی پی والے اس آفس کو نہ سنبھال سکے جس کو بعد میں مالکان نے خالی بھی کروالیا جس کے بعد اس عمارت کا کچھ حصہ اورنج لائن ٹرین کے ترقیاتی کاموں کی زد میں آ گیا اور باقی بچ جانے والے حصے میں لنڈا بازار والوں نے اپنی دکانیں قائم کر لی ہیں یوں ماضی کا ایک تاریخی سیاسی دفتر اب ماضی کا ہی حصہ بن کررہ گیا ہے لیکن آنے والی نسلوں کو بالخصوص نئے سیاسی کارکنوں کو شائد اس تاریخی سیاسی دفتر کے بارے میں آگاہی نہ ہو سکے ۔ضرورت تو اس امر کی تھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں ہی اس تاریخی سیاسی آفس کی حفاظت کرتیں اور اگر اس آفس کو گرایا جانا اتنا ہی ضروری تھا تو یہاں پر مرحوم نوابزداہ نصراللہ مرحوم کی ایک یادگار ہی تعمیر کروادیتے تاکہ اس تاریخی مقام کے بارے میں ہر ایک کو آگاہی رہتی۔

مزید :

صفحہ آخر -