تعمیری سوچ
پچھلے ہفتے پاکستان کے شہر قصور میں جو دل سوز واقعہ پیش آیا اس پر تمام درد مند پاکستانیوں نے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا ، اس واقعہ کے ملزم درندے کے لئے مختلف قسم کی سخت ترین سزائیں تجویز کیں، اس وحشی کو بد دعائیں بھی دیں اور کچھ لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی اسی ہنگامے میں ڈی سی او کے دفتر پر دھاوے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دولوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ پھر حسب روایت وزیراعلیٰ پنجاب موقع پر پہنچے ڈی پی او کو معطل کیا ، واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حکم دیا اور ملزم کو سخت سے سخت سزا دینے کی تلقین کی۔
اب ان تمام کارروائیوں کے باوجود مجھ ایسا ناسمجھ انسان سمجھتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ سب کچھ اسی طرح معمول کے مطابق چل رہا ہے، حالانکہ یہ ایسا بھیانک فعل تھا اور ایسا دل سوز واقعہ تھا، جس سے ملک میں ایک بھونچال آجانا چاہیے تھا اور ایک ایسی تحریک چل جانی چاہئے تھی جو ملک میں ایسے ظالمانہ نظام کو پلٹ کر رکھ دیتی اور ملکی سطح پر ایک ایسی بحث کا آغاز ہوتا جو ایسے واقعات کی مکمل روک تھام تک جاری رہتی، لیکن افسوس صد افسوس کہ اس بیمار، لاچار اور سوچ سے عاری قوم کے کسی کونے سے کوئی ایسی بات سننے کو ملی نہ کسی تحریک کا آغاز ہوا البتہ چند سیاسی شعبدہ بازوں نے اس دل سوز واقعہ پر بھی گندی سیاست کرنے کی کوشش کی اور کچھ لوگوں نے وہی گھسی پٹی جذباتی باتوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اس قدر درندگی پر آسمان گرا نہ زمین پھٹی۔
یہ ایک سانحہ نہیں ہوا وطن عزیز کے کونے کونے میں مختلف اوقات میں ایسے سانحات پیش آتے رہے ہیں، بلکہ اس سانحہ کی گونج کے دوران ہی اس سے ملتے جلتے کئی اور واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ اس سے پہلے کچھ ایسے واقعات پر ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزائیں بھی دی جا چکی ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسے المیے رک نہیں سکے۔
تو پھر جاننا چائیے کہ غلطی کہاں پر ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ میرے خیال میں ان واقعات میں کوئی ایک ملزم ملوث نہ چند افراد کو سزا دینے سے ایسے واقعات کی مکمل روک تھام ہو سکے گی۔
ایسے واقعات کے ہم سب بطور قوم ذمہ دار ہیں ہمارا بیانیہ، ہماری سوچ، ہمارے رسم و رواج ہمارے معاشرے کی گھٹن، معاشرے کا تعلیمی نظام، ہمارے معاشی مسائل اور معاشرتی بے راہ و روی جیسے روپے ایسے واقعات کا موجب ہیں، بطور قوم ہماری کوئی تربیت نہیں ہے، ذرا اپنے تعلیمی نظام پر غور کریں اور اپنے نصاب کو دیکھیں اور اپنے سکولوں اور کالجوں بلکہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا ذہنی لیول چیک کریں تو بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔
پھر مذہبی اجارہ داریاں، فرقہ بندیاں اور دین اسلام کی اپنی اپنی تشریح اور مذہبی درسگاہوں میں پردوں کے پیچھے رونما ہونے والے واقعات یہ سب عوامل مل کر ایسے بھیانک واقعات کا سبب بنتے ہیں۔
بات یہیں تک نہیں، ذرا اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت کو بھی دیکھ لیں ان کی تربیت میں احساس ذمہ داری اور انسانیت کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر بڑے واقعے کا نوٹس وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا چیف جسٹس صاحب کو لینا پڑتا ہے جب تک یہ نوٹس نہ لیا جائے یا ایک دو افسران کو معطل نہ کیا جائے اس وقت تک کوئی کارروائی ہی نہیں ہوتی۔ پھر ان اداروں میں سیاسی مداخلت ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکی ہے میرا نہیں خیال کہ کسی بھی تھانے میں کوئی ایسا رجسٹرڈ مقدمہ ہوگا، جس میں کسی نہ کسی سیاسی شخصیت کا عمل دخل نہ ہوتا ہو۔
اور یہ سیاسی مداخلت کسی کو انصاف دلانے کے لئے نہیں، بلکہ اپنے حامی افراد کو بچانے کے لئے ہوتی ہے چاہے اس نے کتنے بھیانک جرم ہی کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں، بلکہ سب اپنے ذاتی مفاد کے زیر اثر کام کر رہے ہیں خدا کا خوف نہ معاشرے کی بہتری کا احساس۔
اوپر سے پورے ملک میں پھیلی بیروزگاری ، معاشی ابتری اور معاشی ناانصافییوں نے عدم تحفظ اور عدم برداشت کو جنم دے رکھا ہے۔ ساتھ ہی خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح پھیلتا آبادی کا جن مکمل طور پر قابو سے باہر ہو چکا ہے، اب ایسے حالات میں اس طرح کے غیر انسانی واقعات کا رونما ہونا انوکھی بات نہیں ہے۔
اب اس سارے قضیے کا حل کیا ہے؟ کون ان حالات کو بدلے گا، انقلاب کیسے آئے گا؟ اگر ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہو اور اس کے احکامات پر عمل بھی ہوتا ہو اور اگر یہ حکومت واقعی منتخب حکومت ہی ہو تو سب سے پہلے اس حکومت کو اپنا وقت پورا نہ کرنے کے خوف سے نکالنا چاہئے تاکہ وہ اپنے اہداف مقرر کرکے ان پر جانفشانی سے کام کرسکے اور اپنی حکومت بچانے کی یا اگلا انتخاب جیتنے کی فکر چھوڑ کر ملکی حالات کی فکر کرے اور عوام کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی طرف قدم اٹھا سکے۔
سب سے پہلے کرنے والا جو کام ہے وہ یہ کہ منافقت چھوڑ کر ملکی بیانیے کو تبدیل کیا جائے، ملکی قانون بنانے کا کام پارلیمنٹ کرے۔عوام کے سامنے پورا سچ لایا جائے اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے، یونین کونسل کی سطح سے قومی سطح پر ایک تربیتی پروگرام ترتیب دیا جائے اور لوگوں کو اعتماد میں لے کر ان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔
اداروں کی نئے سرے سے تربیت کی جائے اور ان سے سیاسی مداخلت کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔ بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تعلیمی اداروں کی صحیح سمت میں تربیت بہت ضروری ہے انکی تربیت کرنے والوں کی اپنی تربیت نہایت ضروری ہے۔
تمام مذہبی تعلیمی اداروں کو حکومتی تحویل میں لے کر ان کو جدید اور ایک نصاب کے تحت تعلیم دی جانی چایئے(جس میں سب سے پہلے قوانین کی پابندی کا درس ہو اور کسی بھی حالت میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی اجازت نہ ہو) عام لوگوں کو اپنے اردگرد نظر رکھنے اور ذمہ دار شہری بنانے کی تربیت کا اہتمام کیا جانا چاہیے اور یہ سارے اقدامات راتوں رات عمل میں نہیں لائے جا سکتے، آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے ان کا آغاز کیا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ ملک کی کوئی بھی بچی کبھی بھی زینب بن سکتی ہے۔
کبھی بھی کوئی مشال وحشت کا نشانہ بن سکتا ہے، کبھی بھی کوئی بچہ ظلم سے تنگ آکر مدرسے کی چھت سے خود کشی کی چھلانگ لگا سکتا ہے، کبھی بھی کوئی شاہ زیب بہن کی حفاظت کی پاداش میں گولیوں سے چھلنی ہو کر تڑپ تڑپ کر سڑک پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ کوئی بھی غریب بچی کسی جرگے کے ظلم کا شکار بن سکتی ہے۔
اور جب ظلم بڑھے گا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ ڈرو اس وقت سے جب لوگ ایک دوسرے کا گوشت نوچنے لگ جائیں، ڈرو اللہ کے عذاب سے جو ایسی ہی قوموں کے لئے نازل ہوتا ہے، ابھی وقت ہے ظلم کی انتہا سے پہلے پہلے کچھ کر لو ورنہ آپ کے ہاتھ سے وقت نکل جائے گا۔ جو جاگیردار، سرمائے دار ، سیاستدان اور بیوروکریٹ اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ اور ان کے بچے محفوظ ہیں وہ تاریخ کا مطالعہ کریں، سقوط بغداد کا احوال پھر سے پڑھیں اور موجودہ وقت میں شام اور عراق سے سبق سیکھیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جو بیج بویا جاتا ہے وہ پھیلتا ضرور ہے اگر ظلم کے بیج بوؤ گے تو ظلم ایک دن آپ کی دیوار بھی ضرور پھلانگ کر آپ کے گھر بھی داخل ہوگا۔ اگر نیکی پھیلاو گے تو آپ کے گھر بھی نیکی ہی پہنچے گی۔ اس سے پہلے کہ کوئی درندہ ایک اور زینب پر قیامت ڈھائے کوئی قدم اٹھاؤ۔