نمائش اور دکھاوا کام نہیں آتا
ہم پاکستانیوں نے کئی ایسے رواج اپنا لئے ہیں جن کا بظاہر کوئی مادی فائدہ نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ کی رسموں میں اضافہ، غمی اور موت کے بعد کی رسومات اور تقریبات کی رسومات میں کئے جانے والے بلا جواز اخراجات کے زیر بار آتے ہیں۔
نو دولتئے تو نہ جانے کیسے کیسے طریقے اختیار کرتے ہیں تاکہ اپنی دولت کی نمائش کر سکیں۔ نمائش اور دکھاوے کے چکر میں لوگ گھن چکر بن گئے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر جس طرح بے دریغ پیسہ ضائع کیا جاتا ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ کچھ رقم بچا کر کسی غریب لڑکی کی شادی بھی کرائی جا سکتی تھی۔
کھانے کا ضیاع بہت سارے لوگوں کے لئے روحانی تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔ دولت کی نمائش ضلع عمر کوٹ میں ایک بڑے سید زمیندار نے بھی اپنے بیٹے کی شادی پر کی تھی۔
عمر کوٹ کے معمر شہریوں کو یاد ہے کہ انہوں نے اس زمیندار کو قلاش ہوتے دیکھا جو عمر کوٹ کی سڑکوں پر بھیک مانگتا تھا۔ اس قسم کی نمائش سفید پوش لوگوں کے لئے طعنوں کا سبب بھی بن جاتی ہے جب وہ لوگ ان رواجوں پر عمل نہ کر سکیں۔
حال ہی میں ذکر کی ایک محفل صحافی دوست فارو ق تبسم نے سجا ئی تھی۔ اس محفل میں مہمان خصوصی حاجی عبدالحبیب عطاری تھے۔ وہ دعوت اسلامی کی شوری کے رکن ہیں۔ ان سے عقیدت اور محبت کرنے والے حضرات ان کے لئے پھولوں اور اجرکوں کے تحائف لائے تھے۔
گفتگو کی ابتداء کرتے ہوئے ہی مولانا عطاری نے فرمایا کہ پھولوں اور اجرکوں یا چادروں کا تحفہ پیش کرنے سے بہتر ہے کہ کتابیں اور دیگر ضروریات پوری کرنے والی چیزیں پیش کی جائیں اگر پیش کرنا ضروری ہی ہے وگرنہ کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت پھول پیش کرتی ہے جن کا مصرف پیش کئے جانے کے بعد کچھ بھی نہیں رہتا۔ ایک طرح سے پیسے ضائع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہیں لاتعداد اجرکیں اور چادریں تحفے میں پیش کی جاتی ہیں کوئی بھی شخص اتنی بڑی تعداد میں اجرکوں کو کہاں تک استعمال کر سکتا ہے۔
انہوں نے اپنے سامعین کو بتایا کہ پہلی مرتبہ وہ جب یونان گئے تو ان کے استقبال کے لئے آنے والے ان کے لئے پھولوں کے گلدستے لائے جس پر میں انہیں کہا کہ اول تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن اس کی بجائے اگر کوئی کتاب لائے ہوتے تو وہ لوگوں کے کام آجاتی۔
وہ کہہ رہے تھے کہ دوسری بار جب وہ یونان گئے تو لوگ مختلف موضوعات کی کتابیں لائے ۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسے سامعین میں یہ سوچ کر تقسیم کر دیا کہ ان کے پڑھنے سے کسی کا تو بھلا ہوگا۔
عطاری صاحب کی گفتگو سن کر مجھے یاد آیا کہ میں نے صوبہ سندھ کے ریگستانی ضلع تھرپارکر کے سرحدی علاقے ننگر پارکر میں اسی قسم کی گفتگو کی تھی ۔ ستمبر 2016ء میں ہونے والی یہ تقریب تھرپارکر کے ایدھی جگت مشہور ماما وشنو تھری نے منعقد کی تھی تاکہ ننگر پارکر میں کسی کے زر تعاون سے لوگوں کے خون کے بلا معاوضہ ٹیسٹ کرانے کی لیبارٹری کا افتتاح کرایا جائے۔
وشنو تھری کی مخلوق کے لئے کسی صلہ کی خواہش کے بغیر خدمات کی وجہ سے میں ان کا عقیدت مند ہوں ۔ انہوں نے مجھے بھی اس محفل میں طلب کیا تھا۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر سندھی ٹوپیوں اجرکوں اور لوئی کا تحفہ مہمانوں کو پیش کیا۔ جب مجھے تقریر کا موقع دیا گیا تو میں نے لوگوں کو ذہن نشین کرایا کہ اجرکوں کا تحفہ پیش کرنے کی بجائے رقم زر تعاون کی صورت میں وشنو تھری کو دے دی جاتی تو کسی زیادہ اہم مصرف میں کام آجاتی۔
میں گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سندھ ترقی پسند پارٹی کو خیر باد کہہ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے نند لال کھڑے ہوگئے۔ وہ ا سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں سندھی ثقافت کے خلاف گفتگو کر رہا ہوں۔
میں انہیں اپنا مقصد سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا وہ بپھرے جارہے تھے کہ وشنو تھری کو انہیں بٹھا نا پڑا۔ بات یہ ہے کہ ثقافت اپنی جگہ اہم ضرور ہے لیکن ثقافت پیسے کے بے جا خرچ کی اجازت نہیں دیتی۔ انسانوں کی ضرورتیں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
مولانا عطاری نے تو میرے دل کی بات کہی تھی۔ صحافیوں کے لئے بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی جرمنی کی ایک بڑی تنظیم فریڈرک ایبرٹ ا سٹفٹنگ ہے۔ یہ تنظیم جر منی کے پہلے سربراہ حکومت ، جسے چانسلر کہا جاتا ہے، فریڈرک ایبرٹ کی یاد میں قائم کی گئی تھی۔
فریڈرک ایبرٹ ایک عام سے محنت کش شخص تھے۔ وہ اپنی جوانی میں زین سازی کا کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں عوام کی سیاسی تربیت کے لئے کئی اقدامات کئے تھے جسے ان کے بعد ان کے نام پر قائم کرنے والی تنظیم انجام دے رہی ہے۔
انہوں نے ان کے استقبال کے لئے ہار پھول لانے کے عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور وہ سارے پھول جمع کر کے فروخت کرادئے تھے اور وہ رقم عوام کی سیاسی تربیت پر لگادی گئی تھی۔ فریڈرک ایبرٹ تنظیم آج دنیا بھر میں صحافیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ادا کرتی ہے۔
مجھے یہ بات یاد تھی اسی لئے ، میں نے ننگر پارکر کی تقریب میں یہ بات کہہ دی تھی ۔ ننگر پارکر میں لیبارٹری قائم کرنے کے لئے ڈپلو کے ابو بکر میمن و برادران نے اپنی جیب سے خطیر رقم پیش کی تھی۔ وہ بھی اسٹیج پر موجود تھے۔
یہ ایک نیک عمل تھا جس میں تمام ہی لوگ اپنا اپنے حصہ ڈالتے تو بہتر ہوتا۔ ضروری تو نہیں ہے کہ بھاری رقم ہی دی جائے۔ ایک اجرک کی قیمت کے برابر کی رقم بھی تو کار آمد ہوتی ہے۔
ہم جب کسی بیمار کی عیادت کرنے جاتے ہیں تو بھی پھول لے جاتے ہیں حالانکہ پرانے وقتوں کے لوگ اس موقع پر مریض کے سرہانے اپنی حیثیت کے مطابق رقم ڈال کر لفافہ رکھ دیا کرتے تھے رقم مریض کے علاج کے کام آتی ہوگی۔ یہ ساری رسمیں ہم بھول گئے ہیں۔ ہمیں حاجی عبدالحبیب عطاری کی بات ذہن نشین کرنا چاہئے کہ پیسہ ایسے استعمال کیا جائے جو مخلوق کے کسی کام آسکے۔