لڑکی نے کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ جنّ اتارنے والا عامل کنفیوژ ہوگیا اور ۔۔۔
تحریر: پروفیسر عبداللہ بھٹی
ان دنوں میں سردیوں کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں آیا ہوا تھا کیونکہ میں سارا سال مری میں رہتا تھا اور صرف سردیوں میں تین ماہ کے لئے گاؤں آتا تھا لہٰذا لوگ میرا انتظار کرتے اور جب میں آتا تو اپنے مسائل بتاتے۔ انہی دنوں میرے دوست رفیق جوئیہ کے ساتھ ان کا کوئی دوست جڑانوالہ سے آیا اورکہنے لگا ’’ میری بہن کے ساتھ انتہائی خطرناک آسیب یا جن ہے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا۔ ہم بے شمار عاملوں بابوں کے پاس جاچکے ہیں اور بے شمار کو گھر لاچکے ہیں ۔ علاج تو دورکی بات جو بھی علاج کرنے آیا ہے ایسے بھاگتا ہے کہ واپس نہیں آتا بلکہ اکثر بابے دوران علاج بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ اپنی بہن کی بجائے ان بابوں کو ہسپتال لیجانا پڑتا ہے‘‘
میرے ابتدائی دن تھے۔ جس طرح سپیرا سانپ پکڑنے کا شوقین ہوتا ہے مجھے جن پکڑنے کا شوق تھا۔ اس لڑکی کے بھائی نے بے شمار واقعات بتائے کہ آپ سوچ لیں ہمت ہے تو علاج کریں ورنہ نقصان کے ذمہ دار آپ خود کوں گے۔
میرے دوست نے بہت سمجھایا کہ پروفیسر صاحب رہنے دیں کوئی مسئلہ نہ ہوجائے لیکن مجھے اپنے رب پر پورا یقین تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی میری مدد کرے گا۔
میں نے اللہ کا نام لیا اور اس کے بھائی کے ساتھ اس کے گاؤں پہنچ گیا۔ جڑانوالہ کے قریب کوئی گاؤں تھا ۔ہم شام ہونے تک وہاں پہنچ گئے مجھے بتایا گیا کہ رات کو آسیب لڑکی پر حاضر ہوتا ہے لہٰذا مجھے رات اس گاؤں میں گزارنی تھی میری زندگی کا ابتدائی دور بھی گاؤں میں گزرا ہے ۔اس لئے میں گاؤں کے تہذیب و تمدن سے بخوبی واقف تھا۔ کھانا کھانے کے بعد رات کو لڑکی کو میرے سامنے لایا گیا۔ تو ایک بہت خوبصورت اور لمبی لڑکی تھی اور اس پر کوئی بھی عاشق ہوسکتا تھا۔ اس کا نام رانی تھا۔ میں نے اس لڑکی کو سامنے بٹھایا اور پڑھائی شروع کردی ۔وہ معنی خیز نظروں سے پورے اعتماد کے ساتھ مجھے دیکھتی رہی ۔میں نے بہت ساری پڑھائی کی لیکن کوئی بھی چیز حاضر نہ ہوئی۔ میں کنفیوژ ہوچکا تھا کہ یا تو کوئی جنّ ہی نہیں یا پھر کوئی انتہائی طاقتور عامل جنّ ہے جو میرے قابو نہیں آرہا۔
کافی کوشش کے بعد جب کامیابی نہ ہوئی تو فیصلہ ہوا کہ اب صبح کوشش ہوگی۔ رات کو میری چارپائی صحن میں پیپل کے درخت کے نیچے بچھادی گئی۔
عاملین حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ پیپل کے درخت کے ساتھ بہت ساری داستانیں روحانی وآسیبی منسوب ہیں۔ لڑکی کا ایک ہی بھائی تھا جو رات کو مویشیوں کے پاس سونے چلا گیا ۔اب گھر میں بوڑھے ماں باپ ، لڑکی اور میں تھا۔ صحن بہت بڑا تھا۔ میری چارپائی صحن کے آخری کنارے پیپل کے درخت کے نیچے تھی۔
نئی جگہ ،بوڑھا پیپل کا درخت ،رات کا اندھیرا ہر طرف سکوت طاری تھا۔ انجانا خوف بھی کہ واقعی کوئی خطرناک جنّ ہی نہ ہو جو میرے اوپر حملہ کردے۔ رات کافی گزرچکی تھی لیکن مجھے نیند نہیں آرہی تھی میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے کسی آہٹ کا احساس ہوا مجھے لگا۔ میرے علاوہ کوئی اور بھی صحن میں موجود ہے۔ صحن میں پیپل کے درخت کے علاوہ ایک بیری کا درخت بھی تھا ۔مجھے لگا اس بیری کے درخت کے نیچے کوئی بہت بڑا سایہ یا کالی چیز کھڑی ہے۔ میرے رگ و پے میں خوف کی لہریں دوڑنے لگیں کیونکہ وہ جوکوئی بھی چیز تھی بہت طویل قامت تھی، قد تقریباً 15 فٹ کے قریب تھا۔ رات اندھیری اور یہ کالی سیاہ بلا آہستہ آہستہ میری طرف آنا شروع ہوئی ۔ اس کا لمبا قد اور کالے کپڑے دیکھ کر میرے اوپر خوف اور دہشت طاری ہوچکی تھی اور مجھے وہ تمام واقعات اور باتیں سچ معلوم ہونے لگیں کہ کتنے بابے اور عاملین بھاگ چکے تھے اور کئی بے ہوش ہوگئے تھے۔ میں بار بار مختلف پڑھائیاں کررہا تھا لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا جب اس پر کوئی اثر نہ ہوا تو میرے اوپر گھبراہٹ اور خوف مزید طاری ہوگیا بلکہ میں نروس ہوگیا کہ واقعی ہی خطرناک اور طاقتور آسیبی چیز ہے جس پر میری کسی پڑھائی کا اثر نہیں ہورہا اور وہ میرے بالکل قریب آگئی۔ میں نے سوچا بھاگ جاؤں اور اپنی جان بچاؤں، اس طویل قامت بلا نے میری چارپائی کو ٹھوکر ماری۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ، وہ میری چارپائی کو ٹھوکریں ماررہی تھی۔ موت میرے سر پر کھڑی تھی اور شاید یہ میری آخری رات تھی۔
اچانک مجھے لگا شاید وہ مجھے مارنے لگی ہے، اچانک میرے اوپر بھی جنون سا طاری ہوا اور مجھے اور کچھ سمجھ نہ آئی تو میں نے ایک دم اُٹھ کر اسے دھکا دیا اور اس کو نیچے گراکر اس کو پاگلوں کی طرح مارنا شروع کردیا، میرے اوپر جنون طاری تھا اور کوئی قوت مجھ سے یہ کرارہی تھی۔ مجھے کچھ بھی خبر نہیں تھی کہ میں کیا کررہا ہوں، چند لمحوں بعد مجھے احساس ہو اکہ کوئی لڑکی بول رہی ہے ’’ مجھے چھوڑ دو نہ مارو مجھے میں رانی ہوں کوئی بلا نہیں ہوں، چھوڑ دو مجھے‘‘
میں نے پوچھا ’’کون رانی ‘‘
وہ بولی ’’جس کا تم علاج کرنے آئے ہو۔ یہ میں ہی ہوں اور سب کو ڈرا کر بھگادیتی ہوں‘‘
میں آہستہ آہستہ نارمل ہوچکا تھا اور میرے حواس نے کام کرنا شروع کردیا تھا، مجھے اب سمجھ آئی کہ یہ تو وہی رانی لڑکی ہے جس کا میں علاج کرنے آیا ہوں۔ رانی کہنے لگی ’’آہستہ بولیں کوئی سن نہ لے ‘‘
میں نے کہا’’ تم نے تو مری جان لے لی تھی میں تو مرنے والا تھا لیکن تمہارا قد اس قدر لمبا کیسے ہوجاتا ہے‘‘
وہ مجھے کہنے لگی ’’پیر صاحب آپ میر اساتھ دیں ۔میں سب کچھ آپ کو بتادیتی ہوں‘‘
میں نے کہا’’ ساتھ دوں گا‘‘
وہ بتانے لگی ’’ میں پڑوسی گاؤں کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ وہ ہلکی ذات کا ہے۔ ہم اونچی ذات کے ہیں، میرے گھر والے نہیں مانتے اس لئے میں نے جنّ کا ڈرامہ کیا ہے تاکہ میری شادی کسی دوسرے سے نہ ہو اور بالآخر تنگ آکر گھر والے اسی لڑکے کے ساتھ میری شادی کردیں۔ اس چکر میں بے شمار بابے بھگا چکی ہوں‘‘
میں نے کہا ’’اوکے میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ اب بتاؤ تمہارا قید کیسے لمبا ہوجاتا ہے‘‘
تو وہ مسکرا کر بولی ’’ابھی دیکھ لو ‘‘وہ اٹھی تو میں نے دیکھا کہ دو لمبے بانس اور سیاہ چادر پڑی تھی وہ لمبے بانسوں پر سیاہ چادر اوڑھا کر ہاتھوں میں پکڑ لیتی ۔اور عامل سمجھتے کوئی بڑی بلا ان کی جانب آرہی ہے ۔‘‘ یہ سارا پلان اس کے عاشق نے اسے بتایا تھا اور وہ شادی کے جنون میں یہ کررہی تھی اور بے شمار بابوں کو ذلیل و رسوا کرچکی تھی۔
میں نے صبح اپنا وعدہ پورا کیا اور گھر والون کے سامنے جھوٹی حاضری کی۔ جنات کو بھگایا اور رانی ٹھیک ہوگئی۔ جب کافی عرصہ لڑکی کو دورہ نہیں پڑا تو گھر والے میرے احسان مند ہوگئے اورمیرے کہپنے پر رانی کی شادی اس کے عاشق سے کردی ۔
آخر میں یہ بات سن لیں کہ میرے پاس اکثر ایسے کیس آتے ہیں ۔جو لڑکیاں پسند کی شادی کرنا چاہتی ہیں وہ جھوٹے جنات کا چکر چلا کر اپنا مقصد پورا کرنا چاہ رہی ہوتی ہیں ۔ایسی لڑکیاں غلط عاملوں کے ہتھے چڑھ کر برباد بھی ہوجاتی ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔