شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 9

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ ...
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 9

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بیل گاڑی پر سفر کرنے والوں سے اس کو خاصی عداوت تھی۔ اس کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ آغاز آدم خوری کے دوران میں جب اس نے مہابیر کو کسی وقت اور محنت کے بغیر مارلیا تو اس کو اندازہ ہوگیا کہ گاڑی پر بیٹھے ہوئے آدمی کو گرالینا آسان ہے۔
بیل گاڑی کو دیکھتے ہی وہ اچانک گاڑی کے پیچھے نمودار ہوکر دھاڑتا۔ بیل اس کی آواز سن کر بھاگ پڑتے۔ یا تو جوتے ٹوٹ جاتے اور گاڑی گرجاتی یا گاڑی پتھروں سے ٹکرا کر اچھل اچھل کر اُلٹ جاتی۔ کوئی بھی صورتحال پیدا ہوتی ہو، بہرحال گاڑٰ کا سوار کسی نہ کسی طرح لقمہ اجمل بن جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے بیل گاڑیوں پر سفر کرنا ترک کردیا تھا۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بندوق کی طاقت سے بھی رحمتو واقف تھا، کیونکہ عبدالرحیم کے بیان کے مطابق اس کے دونوں کولہے گولیوں سے زخمی ہوچکے تھے اور شاید کوئی گولی ایسی لگی تھی کہ زخم بھرتے وقت عضلات یا تو سکڑگئے یا غلط جڑ گئے کیونکہ اب رحمتو چلتے وقت پچھلا حصہ کسی قدر جھکا کر رک رک کر چلتا تھا۔ پھر تین ہی ماہ پہلے، شانے پر بھی مرلی کی بیوی نے کلہاڑی سے اچھا گہرا زخم پہنچایا تھا۔ اس زخم کے بعد ڈیڑھ دو ماہ تک سارے علاقے میں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ شیر کو اچھا گہرا زخم پہنچا، جس نے اتنے روز اس کو بے کار کئے رکھا لیکن تقریباً دو ماہ بعد اس نے امرگوڑہ نامی بستی کی ایک بوڑھی عورت کو دن کے وقت ایک کھیت کے کنارے گڑھے میں مارا اور وہیں بیٹھ کر نصف کے قریب کھالیا۔
عبدالرحیم نے یہ بھی بتایا کہ شیر شکار کرنے کے بعد عام طور سے اسی جگہ بیٹھ کر جتنا گوشت چاہے کھالیتا اور لاش کو چھوڑ کر چل دیتا ہے۔ پھر اس لاش کو دوبارہ کھانے واپس نہیں آتا۔ ابتدائے آدم خوری کے دو تین واقعات کے سوا وہ کبھی شاکر پر دوبارہ واپس نہیں آیا۔ یہ اس کی چالاکی کی دلیل تھی۔ مزید عیاری عبدالرحیم نے یہ بیان کی کہ اب شیر نہ تو زیادہ دھاڑتا ہے، نہ شکار کرتے وقت نہ شکار پر سے ہٹتے وقت کوئی آواز ہی کرتا ہے۔ نہار موڑ کا وہ غار، جس کے مثلث نما چبوترے پر دو تین سال پہلے روزانہ صبح یا شام بیٹھتا تھا، اب بھی اس کے قبضے میں تھا لیکن اب وہ پہلے سے دھڑلے سے وہاں بیٹھتا نہیں تھا۔ امرگوڑہ کی واردات کے بعد سے میرے پہنچنے تک اس نے مزید کوئی واردات نہیں کی۔
یہ تمام تفصیلات میرے کام میں بڑی معاون ثابت ہوئیں، دوسرے روز صبح ہی صبح ہم نے اپنا سامان بیل گاڑی پر لاوا اور عبدالرحیم کی رہبری میں پالی پور کے طول طویل سفر پر روانہ ہوگئے۔ ہماری رفتار بہت سست تھی۔ راستہ اس قدر پتھریلا اور مشکل تھا کہ گاڑی مسلسل اچھلتی اور پھنس پھنس کر رک جاتی۔ میں نے اس سست رفتاری سے اکتا کر اپنے دونوں بھائیوں محمود اور مسعود کو ساتھ لیا اور عبدالرحیم اور اپنے ملازم دلاور کو گاڑی کے ساتھ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ہمارا پہلا کیمپ سری گڑھ میں ہوا جو گڑھی سے پندرہ میل کے فاصلے پر پچاس ساٹھ گھروں کی ایک آبادی ہے اور اس کے چاروں طرف لہلہاتے کھیت پھیلے ہوئے ہیں۔ رات یہاں گزار کر ہم لوگ صبح سویرے ہی چل کھڑے ہوئے اور اس روز ہنڈی کیمپ کیا۔
ہنڈی پہنچ کر اس خوف و ہراس کا اندازہ ہوا جو رحمتو نے پھیلا رکھا تھا۔ ہنڈی خاصی بڑی آبادی ہے۔ یہاں ستر اسی گھر ہیں اور ہفتے میں تین دفعہ یہاں ایک بازار بھی لگتا ہے، جس میں اردگرد کی آبادیوں کے لوگ خرید و فروخت کے لئے آتے ہیں، لیکن رحمتو کی آدم خوری کے بعد سے اس بازار کی رونق بہت کم ہوگئی تھی، کیونکہ جنگل کا سفر خطرناک ہی نہیں، بلکہ خود کشی کے مترادف تھا۔
ہنڈی سے پالی پور آٹھ میل دور رہ جاتا ہے اور وہ سارا علاقہ جس پر آئندہ صبح ہم سفر کرنے والے تھے، رحمتو کی جولاں گاہ میں شامل تھا۔ خود ہنڈی کے کئی آدمی شکار ہوچکے تھے بلکہ آدم خوری کی ابتداہی ہنڈی کے ایک بیوپاری مہابیر سے ہوئی تھی۔ ہنڈی کے مکھیا، نمبردار اور دوسرے معتبر لوگوں کو ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی ہوچکی تھی اور گاؤں کے کنارے کھیتوں اور سرسبز پہاڑوں کے مقابل ایک مہمان خانہ ہمارے لئے خالی کردیا گیا تھا۔(جاری ہے )

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں