دوسروں کو دیکھنے کا غلط طریقہ
مستشرقین ان مغربی اہل علم کو کہا جاتا ہے جو مشرقی معاشروں ، تہذیب اور زبانوں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ مغربی استعماریت کے عروج کے زمانے میں یہ علم بہت ترقی حاصل کرگیا تھا۔ ان مستشرقین کی ایک بڑی تعداد کی یہ کوشش رہی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام میں خامیاں تلاش کی جائیں ۔ اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی سیرت تو پہلے ہی خامیوں سے پاک ہیں ، اس لیے مستشرقین کی ان متعصبانہ تحقیقات کا جب کبھی علمی جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کی غلطیاں باآسانی واضح ہوجاتی ہیں ۔
ایسے مستشرقین کی اصل غلطی ان کا یہ اندازِفکر ہے کہ خامیوں کی تلاش کے لیے تحقیق کا آغاز کیا جائے ۔ تاہم یہ اندازِ فکر صرف ان مستشرقین ہی تک محدود نہیں ، بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ اسی طرح سوچتے اور ہمیشہ دوسروں کے متعلق غلط رائے قائم کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس اصول پر زندگی گزارتے ہیں ، وہ زندگی کے ہر تعلق میں انسانوں کی خامیاں ہی دیکھتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ان کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں نفرتیں اور عداوتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔
ایک عام انسان خوبی و خامی دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ ہم اگر انسان کی خوبیوں کو چھوڑ کر اس کی خامیوں کے لحاظ سے رائے قائم کریں گے تو وہ ہمارے نزدیک برا ہوجائے گا اور ہم فطری طور پر اس کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کریں گے ۔ جواب میں وہ بھی ہم سے اچھا معاملہ نہیں کرے گا اور معاشرے میں شر بڑھے گا۔ اس کے برعکس اگر ہم کسی کے حوالے سے اس کی خوبیوں کی بنیاد پرتصور قائم کریں گے تو اس کے ساتھ ہمارا معاملہ اچھا ہو گا۔ اور جواب میں وہ بھی ہمارے ساتھ اچھا کرے گا اور یوں معاشرے میں محبت، خیر اور سکون عام ہوجائے گا۔ لوگوں کی جان، مال اور آبرو کو تحفظ ملے گا۔ یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں انسانیت کو سب سے زیادہ مطلوب ہے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔