"پیغامِ پاکستان "کب کامیاب ہوگا؟
16جنوری2018ءکوپاکستان کی تاریخ میں ایک تاریخی سنگ میل "پیغامِ پاکستان "کی صورت عبورکیا گیا۔جس میں ملک بھر کے تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے متحد ہوکر دنیا کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان نظریہ اسلام کی بنیاد پر بنا،پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے،جس کا مذہب اسلام ہے۔پاکستان جس اسلام کا نام لیوا ہے وہ اسلام امن پسندی کا دعوے دار ہے،شدت پسندی اور دہشت گردی کا اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔"پیغامِ پاکستان"دراصل وہ متفقہ قومی بیانیہ ہے،جس میں 1947ء کے بعد ایک مرتبہ پھر نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کوقومی وبین الاقوامی سطح پر اجاگرکیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ نظریہ پاکستان قیام پاکستان کی وہ اساس ہے جس کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں،مگر اس اساس کو پچھلے 70سالوں سے مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا جاتارہا۔جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ آئے روز مکالمے اور مباحثے کے نام پر آوازیں اٹھائی جاتی ہیں کہ پاکستانی اسلامی نظریے کی بنیادپر نہیں بنا،قائد اعظم ؒ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے،ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،ریاست کا کام کسی کو کافر یا مسلمان بتانا نہیں،ریاست تو لبرل اور سیکولر ہوتی ہے۔ یہ وہ آوازیں جو قیام پاکستان کی بنیادوں کو گزشتہ سترسالوں سےمسلسل ہلارہی ہیں۔یہی نہیں بلکہ اسلام پسندوں کے مطابق700 کے لگ بھگ ایسے قوانین ہیں جنہیں آج تک نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ نہیں کروایا گیا۔اسلامی قوانین اور اسلامی نظام کو اپنی مکمل ہئیت وماہیت کے ساتھ رائج کرنے کی بجائے اسلامی نظا م کا راستہ روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ۔اسلام پسندوں کا دست بازو بننے کی بجائے انہیں معاشرے میں اس قدر رسوا کیا گیا کہ ان کا نام نفرت کا استعارہ بن گیا۔نظریہ پاکستان کے احیاء کے لیے کام کرنے والوں پرشدت پسندی اور قدامت پسندی کا لیبل لگادیا گیا۔حالاں کہ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ نظریہ پاکستان اور دستورِ پاکستان کو سب پر مقدم رکھتی اور اس کی حفاظت کے لیے طاقت سے بڑھ کر ازخود کام کرتی،تاکہ پاکستان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا۔مگرریاست اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام رہی،جس کی وجہ سے وطن عزیز پاکستان میں انفرادی اور گروہی سطح پر نفاذ اسلام کےنام پر لوگ کھڑے ہوئے ۔جنہوں نے عسکری جدوجہد کو حرف ِآخر سمجھ کر وطن عزیز کو انتشارو فساد کی آگ میں جھونکا۔کوئی شک نہیں کہ نفاذ اسلام کی پرامن جدوجہد ہی ریاست پاکستان کے مفاد میں ہے،بزورطاقت اسلام دنیا میں پھیلا،نہ اسلامی نظام دنیا میں طاقت کے بل بوتے پر رائج ہوسکتاہے۔مگر سوال یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کی خاطر پرامن جدوجہد کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو نفاذا سلام اور نفاذ شریعت کا نعرہ بلند کرنے کا موقع ہی نہ دیتی؟۔اب قصور کس کا ہے،ذمہ دارکون ہے؟اس پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ہمیں ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کرنی ہوگی۔
"پیغام ِ پاکستان"کی صور ت پاکستان کےپر امن مستقبل کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگیا ہے۔ جس میں اسلام پسند وں اور مذہبی طبقوں کا بہت بڑا کردار ہے۔یہ اسلام پسند پہلے بھی نظریہ پاکستان کے بانی وحامی رہے،ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کی مخالفت کرتے رہے اب بھی یہ لوگ پاکستان کے دفاع اور پرامن پاکستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ پیغام ِ پاکستان کو کامیاب بنانے کے لیے دوسرے مرحلے میں اب ریاست کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ "پیغامِ پاکستان"کے متفقہ بیانیے کو کس طرح عملاً ازخود نافذ العمل بناتی ہے؟۔اگرریاستی سطح پر نظریہ پاکستان کو عملاً ملک بھر میں رائج کردیا جائے تو کسی کو اسلامی نظام اور نفاذ شریعت کا نام لینے کی ضرورت پیش آئے ،نہ انفرادی و گروہی سطح پر کوئی ریاست کی ذمہ داریوں کو ازخود نافذ کرنے کے لیے کھڑا ہو جس سے ملک میں اتنشار وفساد پھیلے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح ریاست نے ہر اس شخص کا تعاقب کیا ہے جو نفاذ شریعت اور نفاذ اسلام کی خاطر عسکری جدوجہد کاراستہ اپنائے،بعینہ اسی طرح ریاستی سطح پر ہر اُس شخص کا محاسبہ کیا جائے جو نظریہ پاکستان کو بایں طور جھٹلائے کہ پاکستان ایک سیکولر سٹیٹ ہے،قائداعظم ؒ پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے،پاکستانی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے،ریاست کسی کے مذہب کو ڈیفنڈ نہیں کرسکتی۔
رہا مسئلہ ملک میں فرقہ واریت اور منافرت کے خاتمے کا تو اس کے لیے بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ تما م مسالک اور مکاتب فکر کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور ریاستی کاموں کی بجاآوری میں کسی مسلک اور کسی مکتبہ فکر کے رنگ کو حاوی نہ ہونے دے۔ریاست سے جڑے ہر شخص کو پابند کیا جائے کہ وہ مسلکی رجحانات سے بالاتر ہوکر ریاست کے مفاد کو مقدم رکھے۔
"پیغام پاکستان"میں ایک اور اہم کارنامہ یہ سرانجام دیا گیا کہ مقدس ہستیوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین پر عملاً سزا کامطالبہ کیا گیا۔جو ایک بہت بڑی پیش رفت ہےجس سے ملک میں فرقہ واریت اور منافرت کا ان شاءاللہ خاتمہ ہوگا۔پیغام پاکستان کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پیغام پاکستان کے اعلامیے کو ریاست حتمی طور پر جلد ازجلد نافذ العمل بنائے،تاکہ وطن عزیز پاکستان میں امن وسکون کی فضا قائم ہو۔اللہ سے دعاہے کہ وطن عزیز پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنائے اور وطن عزیز کو دشمنوں کے برے عزائم سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔آمین
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔