تبدیلی سرکار کا ایک اور منی بجٹ
تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ برسراقتدار آکر تبدیلی لائے گی اور گزشتہ تقریباً پانچ ماہ میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے، ٹیکس بڑھ رہے ہیں،کاروبار بند ہیں اور بیورو کریسی حکمرانوں کے غضب سے بچنے کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئی ہے کہ نہ کچھ کریں گے اور نہ ہی حکومتی احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزید بات یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے تاحال کوئی اقتصادی پیکیج حاصل نہیں کیا، لیکن پھر بھی اس کی شرائط پوری کرکے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ نہیں سوچا جا رہا کہ اس کے عوام کے مالی معاملات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جو چیز اگست سے پہلے سو روپے میں مل جاتی تھی، وہی اب ڈیڑھ دو سو میں دستیاب ہے۔ روٹی آٹھ روپے کی ہو گئی ہے اور نان بارہ روپے کا۔ جو مزدور دن بھر میں سات سو روپے کما کر اس میں سے ساٹھ ستر روپے میں ایک وقت کا کھانا اور ایک کپ چائے پی لیتا تھا، وہ اب اپنے دوپہر کے کھانے پر سو ڈیڑھ سو روپے خرچ کرنے پر مجبور ہے۔
مَیں سوچتا ہوں اس کے گھر والوں کے لئے کیا بچتا ہو گا۔ وہ اپنا پیٹ کیسے بھرتے ہوں گے۔ اپنی دوسری ضروریات جو ظاہر ہے پیسے کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں، کیسے پوری کرتا ہو گا۔ نئی حکومت کے دور میں ایک نئی تبدیلی یہ آئی ہے کہ پانچ ماہ کے مختصر عرصے میں دوسرا منی بجٹ پیش کیا جا رہا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت 23جنوری کو ضمنی بجٹ کے طور پر فنانس بل اسمبلی میں متعارف کرائے گی۔ انہوں نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ حکومت کا منی بجٹ پیش کرنے کا مقصد ریونیو بڑھانا نہیں، بلکہ سرمایہ کاری بڑھانا اور کاروباری طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنا ہے۔ شاید ویسے ہی جیسے روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی کرکے برآمدات میں ’’ریکارڈ‘‘ اضافہ کر لیا گیا ہے۔ اسد عمر نے یہ بھی بتایا کہ ضمنی بجٹ میں پہلے سے منظور کئے گئے بجٹ میں موجود بعض خامیوں کو دور کیا جائے گا۔پھر ممکن ہے وہ اس ضمنی بجٹ کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ایک اور منی بجٹ کا بھی اہتمام کریں اور یہ سلسلہ ممکن ہے پانچ سال چلتا رہے، اگر یہ حکومت پانچ سال نکال گئی تو ،ورنہ جو لوگ پہلے یہ کہہ رہے تھے کہ حکومت دو اڑھائی سال میں فارغ ہو جائے گی، وہ اب ایک ڈیڑھ سال کی پیس گوئی کر رہے ہیں۔ وزیرخزانہ کے منہ سے ایک لطیفہ یہ نکل گیا کہ ان کی حکومت کی پانچ ماہ کی کارکردگی گزشتہ حکومتوں کے ابتدائی پانچ ماہ کی کارکردگی سے کہیں بہتر ہے۔
اندازہ لگائیں ،خوش فہمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ وائس آف امریکہ کی خبر یہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ نے معروف تاجر اور کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر سراج قاسم تیلی کو یہ یقین دلایا ہے کہ منی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا یا اگر لگایا بھی گیا تو انتہائی کم ہو گا۔ ان کی یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ واضح طورپر بتائیں کہ ٹیکس لگانا ہے نہیں لگانا۔ اگر نہیں لگانا تو پھر ’’انتہائی کم‘‘ کا کیا مطلب ہوا؟لگتا ہے عوام کو بہلانے میں یہ حکمران بھی کسی سے کم نہیں۔
کیا کسی بچے سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک حکومت اگر پانچ ماہ میں دو منی بجٹ پیش کرے تو پانچ برس میں وہ کتنے بجٹ اور منی بجٹ پیش کرے گی۔ جناب اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ بجلی، پٹرول اور گیس مہنگی کر دی جائے، ٹیکس بڑھا دیئے جائیں اور جو پہلے سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، انہی سے مزید نکلوانے کے اقدامات کئے جاتے رہیں۔ حکومت اگر واقعی ملک کو اقتصادی طور پر مضبوط اور مستحکم دیکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے اقدامات اور رویوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔
ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا اور عام آدمی کو کچھ ریلیف فراہم کرنا ہو گی، کیونکہ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا، سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ کی گردان عوام پچھلے ستر برسوں سے سن رہے ہیں۔ انہیں تو فوری ریلیف چاہیے۔ چند روز پہلے راولپنڈی چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر ثمران پاشا کا ایک بیان نظر سے گزرا، جو حکمرانوں کے لئے بہترین نصیحت تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لئے ٹیکس گزاروں کو سہولیات فراہم کی جائیں، ٹیکس وصولی کے عمل کو آسان بنایا جائے اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ میں نئے لوگوں کو شامل کیا جائے۔ مَیں اس میں صرف یہ اضافہ کروں گا کہ ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے والی ٹیم پر نظرثانی کی جائے، تاکہ اس ادارے میں پائی جانے والی کرپشن کا گراف نیچے آ سکے۔ یہ کام ہو گئے تو پھر قومی معیشت کی ترقی اور بڑھوتری کی راہیں خودبخود کھل جائیں گی۔
کاروبار کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ اس سے وابستہ لوگوں کو فائلر اور نان فائلر جیسے مسائل میں نہ الجھایا جائے۔ معیشت کو استحکام اندر سے ملتا ہے، جب قومی سطح پر تجارتی و کاروباری، صنعتی و زرعی سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔ غیرملکی قرضے تو محض وقتی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور پھر کوئی حکومت آخر کتنے قرضے اور ادھار تیل دوسرے ممالک سے لا سکتی ہے۔
حکومت کاروبار اور تجارت بڑھائے، ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں دور کرے، معیشت خود بخود اتنی مضبوط ہو جائے گی کہ کسی بیرونی قرضے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ یہ کام منی بجٹوں کا سلسلہ ختم کرکے ہی ہو سکتا ہے۔