سانحہ ساہیوال اور حکومت کی مس ہینڈلنگ

سانحہ ساہیوال اور حکومت کی مس ہینڈلنگ
سانحہ ساہیوال اور حکومت کی مس ہینڈلنگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی اسمبلی میں حکومتِ وقت کی جو گت بنی ہے، اس کی وہ خود ذمہ دار ہے۔ انگریزی کا ایک لفظ ہے: ’’مس ہینڈلنگ‘‘ ۔۔۔اس لفظ کی عملی تعبیر دیکھنی ہو تو سانحہ ساہیوال کے بعد حکومت کے وزرا اور سی ٹی ڈی کی کارکردگی دیکھ لی جائے۔

آج یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے چوبیس گھنٹے میں سات موقف بدلے، حالانکہ یہ موقف حکومت کے نہیں، بلکہ سی ٹی ڈی کے تھے، مگر جب کوئی سرکاری ادارہ اپنا موقف ظاہر کرتا ہے تو وہ حکومتِ وقت کا موقف ہی سمجھا جاتا ہے۔ پہلی نااہلی تو پنجاب کے آئی جی کی ہے کہ وہ سی ٹی ڈی کو پے در پے بیانات تبدیل کرنے سے نہیں روک سکے۔انہوں نے پولیس کے ڈی جی پی آر کا پریس ریلیز بلا تحقیق اور بلا سوچے سمجھے جاری کر دیا۔ دوسری غلطی مرکز اور صوبے کے وزرائے اطلاعات کی ہے،جنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، کیمرے کے سامنے آنے کی اپنی عادت دیرینہ سے مجبور ہو کر سی ٹی ڈی کے موقف کو من و عن بیان کرنا شروع کر دیا۔

سب سے بڑی حماقت حسبِ معمول وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کی، جب انہوں نے لائیو آ کر یہ کہا کہ دہشت گرد، خواتین اور بچوں کی انسانی آڑ لے کر دہشت گردی کرنے جا رہے تھے۔ حماقت کے اس سفر کو آخری منزل تک پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے پہنچایا،جب پریس کانفرنس میں تمام تر شواہد سامنے آنے کے باوجود وہ گاڑی سے خود کش جیکٹوں، اسلحہ بارود برآمد ہونے کی جھوٹی، خلافِ واقعہ کہانی سناتے رہے۔ یوں لگتا تھا پنجاب کا وزیر قانون نہیں، سی ٹی ڈی کا پی آر او پریس کانفرنس کر رہا ہے۔ یہ اتنی بڑی مس ہینڈلنگ ہے، جس کا دفاع کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔
سوال یہ ہے اِن سب وزرا کو آخر کیا مصیبت آن پڑی تھی کہ انہوں نے بونگی پر بونگی ماری۔ جب جے آئی ٹی بنا دی گئی تھی اور اُسے72گھنٹے کا وقت دے دیا گیا تھا تو پھر بے تکی باتیں کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ اگر پنجاب کا وزیر قانون پریس کانفرنس میں یہ کہہ دے کہ ذیشان دہشت گرد تھا اور گاڑی خفیہ والوں کی نظر میں تھی، جس کا تعاقب کیا گیا تو جے آئی ٹی کیسے اس موقف کو جھٹلائے گی۔ حقیقت کا اس بیانیہ سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں، کیونکہ حالات و واقعات اس سے قطعی لگا نہیں کھاتے۔

ایسے بے تکے دلائل تو کوئی عام آدمی بھی نہیں دیتا، جتنے وزیر قانون پنجاب نے دیئے۔ اب ظاہر ہے جب اس قسم کی ہینڈلنگ ہو گی تو حکومت کا چہرہ تو خراب ہو ہی جائے گا۔ سب سے پہلا حکم تو یہی جاری ہونا چاہئے تھا کہ واقعہ پر سی ٹی ڈی یا پولیس کوئی پریس ریلیز جاری نہ کرے۔ حکومت خود بیان جاری کرے گی۔ یہ کون لوگ تھے،جنہوں نے حکومت کے امیج کو تباہ کیا اور ہر پانچ منٹ بعد ایک جھوٹی کہانی گھڑ کر میڈیا پر چلواتے رہے۔ ہر کہانی ویڈیوز کی فوٹیج کے باعث جھوٹی ثابت ہوتی رہی،یوں لگا جیسے حکومت اِس واقعہ کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی ٹی وی چینل پر کہہ رہے ہیں کہ پہلے لمحے ہی انہیں یقین ہو گیا تھا کہ بے گناہ مارے گئے ہیں،مگر اُن کی وجہ سے ہی تو سارا کھیل بگڑا۔انہوں نے اس واقعہ کی جو ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ کو بھجوائی، وہ جھوٹ کا پلندہ تھی، جب اُن کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ مقابلہ جھوٹا ہے تو پھر انہوں نے یہ رپورٹ آگے کیوں بھیجی؟ ڈی جی پی آر پولیس کے ذریعے اس کا ہینڈ آؤٹ کیوں جاری کروایا؟وہ اِس معاملے کو اپنی گرفت میں رکھتے تو اس واقعہ کے بارے میں اتنا کنفیوژن بھی نہ پھیلتا اور حکومت کی جگ ہنسائی بھی نہ ہوتی۔
اس واقعہ کی سنگینی کو جس بات نے بہت زیادہ بڑھایا،وہ یہی تاثر تھا کہ پولیس بندے مارتی ہے اور پھر اُنہیں دہشت گرد بھی قرار دے دیتی ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بول کر پولیس کے محکمے کی رہی سہی ساکھ کو بھی مٹی میں ملا دیا گیا۔

پورا مُلک ایک طرف کھڑا تھا اور سی ٹی ڈی کے ذریعے پولیس کا محکمہ دوسری طرف کھڑا آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔عملاً دیکھا جائے تو حکومت نے ماضی کی نسبت تیز رفتار اور اچھے اقدامات اٹھائے۔ واقعہ کا مقدمہ درج کیا گیا۔ سی ٹی ڈی کے اہلکار حراست میں لئے اور فوری جے آئی ٹی بنا دی، مگر یہ سب اقدامات اُس دھول میں دب گئے، جو حکومتی شخصیات اور وزرا نے اُڑائی۔

سب سے پہلی غلطی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ہوئی، وہ اس وقت میانوالی کے دورے پر تھے،جب یہ واقعہ ہوا۔ اُن سے جب صحافیوں نے اس واقعہ پر سوال پوچھا تو وہ تقریباً لاعلم تھے۔ یہ اُن کے سٹاف کی انتہائی نااہلی ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کو فوراً صوبے کے وزیراعلیٰ تک نہیں پہنچا سکے۔ پھر وہ سیدھے ساہیوال جانے کی بجائے لاہور آ گئے اور چھ گھنٹے تک لاہور میں بیٹھ کر بیانات جاری کرتے رہے۔

سنگینی بڑھتی گئی، سڑکوں پر حالات خراب ہو گئے، تب بھی انہوں نے جلتی پر پانی ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔آخر وزیراعظم عمران خان کو مداخلت کرنا پڑی اور اُن کی ہدایت پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ساہیوال جانے کا قصد کیا۔یہاں بھی اُن کے احمق عملے نے اُن کے اِس دورے کو عمومی رنگ دینے کی بدترین حماقت کی

۔وہ معصوم بچوں کی عیادت کرنے ہسپتال گئے تو پھولوں کے گلدستے لے گئے۔اس کا نہ موقع تھا اور نہ معصوم بچے اس سے خوش ہو سکتے تھے۔ اب اپوزیشن والے اگر اسے تنقیدکا نشانہ بنا رہے ہیں اور خواجہ آصف یا پرویز اشرف نے یہ کہا ہے کہ سوگ والے گھر میں پھول لے کر کون جاتا ہے، تو اس کا جواز بنتا ہے۔

معاملہ حادثے کے زخمیوں کا تو نہیں تھا، یہ تو معصوم بچوں کے سامنے اُن کے والدین کو گولیوں سے بھون دینے کی سنگین واردات تھی۔اس پر غیر روائتی ردعمل کی ضرورت تھی۔
حکومت نے اپوزیشن کو اس واقعہ کے حوالے سے اتنے زیادہ اعتراض کے مواقع طشتری میں سجا کر پیش کئے کہ یوں لگا جیسے حکومت اپنی دشمن آپ ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جو ٹویت کئے وہ حکومت کے خلاف اپوزیشن نے خوب استعمال کئے۔

اُن کی اِس ٹویٹ سے تو تنقید کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا کہ مَیں اس واقعہ پر سخت صدمے کی حالت میں ہوں کہ کیسے بچوں کے سامنے اُن کے ماں باپ کو گولیاں ماری گئیں؟ انسانی جذبات کے حوالے سے یہ واقعی ایک دردناک کیفیت کا بیانیہ ہے،مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہئے تھا کہ وہ کوئی بے بس عام آدمی نہیں، بلکہ ملک کے وزیراعظم ہیں،اُن کے لہجے میں اگر مایوسی اور بے بسی نظر آئے گی تو پورے ملک میں مایوسی اور خوف جنم لے گا،اُنہیں تو اس عزم کا اظہار کرنا چاہئے تھا کہ وحشت کا مظاہرہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس مُلک میں اب جنگل کا قانون نہیں چلنے دیں گے، بے گناہوں کا لہو پاکستان میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا، رائیگاں نہیں جائے گا۔اس مس ہینڈلنگ کے باوجود اب بھی نظریں وزیراعظم عمران خان پر لگی ہوئی ہیں،انہوں نے دورۂ قطر پر جانے سے پہلے وہ بیان دیا جو اُنہیں پہلے دینا چاہئے تھا۔انہوں نے کہا کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑیں گے اور پنجاب پولیس میں اصلاح کے لئے پورے سٹرکچر کو تبدیل کریں گے۔آج سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ بحث اس نکتے پر ہو رہی ہے کہ عمران خان کیا اقتدار میں آنے کے بعد بزدل ہو گئے ہیں،کیا انہوں نے اپنا وہ نظریہ چھوڑ دیا ہے کہ مُلک میں تبدیلی لا کر رہیں گے،پنجاب کو پولیس گردی سے نجات دلائیں گے؟کیا وہ کسی ایسی جے آئی ٹی رپورٹ کو درست تسلیم کریں گے؟جس میں اس قتلِ عمد کے ملزموں کو بچانے کی رتی بھر کوشش بھی کی گئی ہو،کیا وہ اس سانحہ کو ایک مثال بنائیں گے یا روایتی اقدامات کے ذریعے اس پر بھی مٹی ڈال دیں گے؟ یہ واقعہ اب قصۂ پارینہ بننے والا نہیں۔ وقت کی گرد شاید اسے معدوم نہ کر سکے، اس کی جزئیات پوری سفاکی کے ساتھ عوام کے سامنے آ چکی ہیں، اس پر اگر ملمع کاری کے ذریعے پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو ایسا کرنے والے عوام کی نفرت کا شکار ہو جائیں گے، چاہے وہ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -