اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 82
لوگوں نے حضرت بایزیدؒ سے سوال کیا ’’انسان کو مرتبہ کمال کس وقت حاصل ہوتا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’جب مخلوق سے کنارہ کش ہوکر اپنے عیوب پر نظر پڑنے لگے تو قرب الہٰی حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘
***
حضرت ابراہیم بن اوہمؒ نے فرمایا
’’میں نے ایک غلام خرید کر جب اس کا نام دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ آپ کی مرضی جس نام سے پکاریں مجھے اعتراض نہ ہوگا۔ پھر میں نے جب یہ سوال کیا کہ تم کھاتے کیا ہو؟ تو اس نے کہا جو آپ کھلادیں۔ میں نے پھر پوچھا کہ تمہاری خواہش کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ جو آپ کی خواہش ہو۔ غلام کو ان چیزوں سے کوئی بحث نہیں۔‘‘ یہ سن کر مَیں نے اپنے دل میں سوچا کہ کاش میں بھی اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی اطاعت گزار ہوتا تو کتنا بہتر تھا۔
***
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 81 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت احمد بن حنبلؒ کا بیشتر وقت حضرت بشر حافیؒ کے پاس گزرتا۔ وہ آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ چنانچہ جب آپ کے شاگردوں نے پوچھا کہ محدث اور فقیہہ ہونے کے باوجود آپ ایک خبطی کے ہمراہ کیوں رہتے ہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا ’’مجھے اپنے علوم پر تو مکمل عبور حاصل ہے لیکن وہ خبطی اللہ تعالیٰ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے اسی لئے میں اسے خدا کی باتیں سنانے کے لئے کہتا رہتا ہوں۔‘‘
***
کسی نے حضرت حاتم اصمؒ سے نصیحت کرنے کو کہا’’آپ نے فرمایا ’’اگر دوست کی خواہش ہے تو خدا کافی ہے۔ اگر ساتھیوں کی تمنا ہے تو نکیرین بہت ہیں اور اگر عبرت حاصل کرنا چاہتے ہو تو دنیا کافی ہے۔ اگر مونس کی تلاش میں ہو تو قرآن بہت کافی ہے۔ اگر کوئی مشغلہ چاہتے ہو تو عبادت بہت بڑا مشغلہ ہے اور اگر میرے یہ اقوال ناگوار گزریں تو جہنم کافی ہے۔‘‘
***
حضرت ذوالنون مصریؒ کے بلند مراتب سے ناواقفیت کی بنا پر لوگوں نے آپ کو زندیق کا خطاب دے کر خلیفہ وقت سے آپ کی شکایت کردی۔ اس پر خلیفہ وقت نے آپ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ چنانچہ جب آپ کو بیڑیاں پہنا کر لے جایاجارہا تھا تو ایک ضعیف عورت نے آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’خوفزدہ نہ ہونا۔ کیونکہ وہ بھی تمہاری طرح خدا کا ایک بندہ ہے۔‘‘
اسی وقت ایک بہشتی نے آپ کو ٹھنڈے پانی سے سیراب کیا اور اس کے صلہ میں جب آپ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اس کو ایک دینار دے دو تو بہشتی نے عرض کیا ’’قیدیوں سے کچھ لینا بزدلی کی علامت ہے۔‘‘
جب آپ دربار خلافت میں پیش ہوئے تو خلیفہ وقت کے حکم سے آپ کو چالیس دن قید ہوگئی۔ قید کے دوران آپ کی ہمیشہ روزانہ ایک روٹی آپ کے پاس لے جایا کرتی تھیں، لیکن رہائی کے بعد ہر دن کے حساب سے چالیس روٹیاں آپ کے پاس محفوظ تھیں اور جب آپ کی ہمشیرہ نے آپ سے کہا کہ یہ تو جائز کمائی کی تھیں پھر آپ نے کیوں نہیں کھائیں۔
آپ نے فرمایا ’’چونکہ داروغہ جیل ایک بدباطن قسم کا انسان ہے۔ اس لیے اس کے ہاتھ سے روٹی اندر بھجوائی جاتی تھی جس سے مجھے کراہت محسوس ہوتی تھی۔‘‘
***
ایک رات جب حضرت بایزیدؒ کی والدہ محترمہ نے فرمایا کہ دروازے کا ایک پٹ کھول دو۔ لیکن وہ رات بھر اسی پریشانی میں کھڑے رہے کہ نہ معلوم والدہ محترمہ نے کون سا پٹ کھولنے کو کہا ہے۔ دایاں یا بایاں۔ اگر والدہ محترمہ کی مرضی کے خلاف غلط پٹ کھل گیا تو حکم عدولی میں شمار ہوگا چنانچہ آپ نے اسی پریشانی میں کھڑے کھڑے رات بسر کردی۔
انہی خدمات کی وجہ سے آپ کو بلند مراتب حاصل ہوئے۔(جاری ہے )