پولیس پر توجہ دیں
ساہیوال کا دلخراش واقعہ قابلِ مذمت ہے۔ کم سن بچوں کے سامنے اُنکے ماں باپ کو وحشیانہ انداز میں گولیوں سے بھوُن ڈالنا ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنے بھی دُکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔سی ٹی ڈی نے جس بر بریت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اُس کی اُن سے توقع نہیں کی جا سکتی ۔ سی ٹی ڈی میں کام کرنے والے پیشہ ور ملازم ہوتے ہیں ۔ اُنکو صورت حال سے نمٹنے کے لئے با قاعدہ تر بیت دی جاتی ہے۔ بیشک اُن کے پاس خفیہ اطلاعات موجود تھیں جن کی بُنیاد پر یہ آپریشن کیا گیا۔ لیکن جس بھونڈے انداز سے یہ آپریشن کیا گیا۔ وُہ ہرگز قابل تحسیں نہیں ہے۔ عوام کا شدید ردِ عمل غیر متوقع ہرگز نہیں ہے۔ آئی جی، ڈی آئی جی ، ایس ایس پی اور دوسرے اہل کار اپنے مراتب کے لحاظ سے اہم ہو سکتے ہیں لیکن مُلک کے آئین کے مُطابق وُہ عوام کے ملازمین ہیں جن کی تنخواہیں عوام کے دئے ہوئے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہیں۔ اس لئے اُن کے محاسبے کے لئے مطالبہ کرنا کوئی غیر وا جب چیز ہر گز نہیں۔ ایک مہذب اور متعلم معاشرے میں ایسی بر بریت کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز موجود نہیں، شک کی بُنیاد پر کسی شخص کی جان لے لینا ایک سنگین جُرم ہے۔
مُلزمان کو گرفتار کرکے عدا لتوں کے سامنے پیش کرنا پولیس اور تحقیقاتی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ مُلزمان کو اُن کے جُرم کے حساب سے سزا دینا عدالتوں کا کام ہے۔ لیکن یہ با ت نہائت افسوس کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ ہماری پولیس اور تحقیقا تی ادارے اپنی ذ مہ داری ایمانداری سے نبھانے کی بجائے غریب اور نہتے عوام پر ظُلم ڈھاتے ہیں۔ اکژ اوقات رشوت لے کر مُلزمان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے دورِ حکومت میں پولیس کی کا ر کردگی مجموعی طور پر قابل ستائش نہیں رہی۔ ہر دور میں پولیس اور ایجنسیوں کے خلاف عوام میں غیض و غضب پا یا جاتا رہا ہے۔ ہر وقت یہ ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ ہماری پولیس کی تربیت موجودہ دور کے تقاضوں کے مُطابق ہونی چاہئے۔ لیکن پتہ نہیں کن مصلحتوں کی بُنیاد پر ایسے محکموں کی تربیت کو اہم نہیں سمجھا جاتا؟۔ قانون کو نافذ کرنے اور امن و امان کو قایم کرنے میں پولیس کا کردار کلیدی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن پولیس ملاز مین کے نقطہ نظر سے اُن پر عائد کئے جانے والے الزامات زیادہ تر بوگس اور بے بنیاد ہوتے ہیں۔ پولیس مُلاز مین بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب حکومت اُن کو سہولیات بہم نہیں پہنچائے گی تو وُہ لوگ اپنا پیٹ پالنے کے لئے لا محالہ رشوت لیں گے اور اپنی ضرورت کو پُورا کرنے کے لئے ہر قسم کی کرپشن مں ملوث ہوں گے۔
عوام اور حکومت کو پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شکائت رہتی ہے کہ یہ لوگ مجرموں کو پکڑنے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں۔ جبکہ پولیس اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہمیں جو ڈاکوں یا مجرموں کو پکڑنے کے لئے حکومت کی جانب سے ا سلحہ فراہم کیا جاتا ہے وُہ نہائت بوسیدہ اور آؤٹ ڈیٹڈڈ ہوتا ہے۔ جب کہ مُلزمان کے پاس جدید قسم کا اسلحہ وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ اگر پولیس جان کی بازی لگا کر اُن کو گرفتار بھی کر لے تو با اثر افراد اُنکی صفائی دینے اور اُن کو چھُڑانے کے لئے متحرک ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ اُن کی حمائت میں سفارشیں کرتے ہیں اصل میں وُہ مجرم ہیں۔ اُن کو سزا دینے کی بجائے سارا غصہ پولیس یا دیگر تحقیقاتی اداروں پر نکال دیا جاتا ہے۔ سیاست دان پولیس کو تر بیت دینے اور جدید اسلحہ سے لیس کرنے کی باتیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کُچھ نہیں کرتے۔ اگر حقائق کی بات کی جائے تو علاقے کا ہرایم این اے اور ایم پی اے پولیس سے ایک خاص قسم کی خدمت کی توقع رکھتا ہے۔ ہر ایم این اے اور ایم پی اے چاہتا ہے کہ اُسکی سفارش پر بغیر کسی تحقیق یا کارروائی کے مُلزمان کو نہایت احترام کے ساتھ چھوڑ دیا جائے۔ پولیس والوں کو اپنی مُلازمتیں بچانے کے لئے اُن کی بات سُننی پڑتی ہے۔ اسی طرح جب پولیس والوں کے خلاف رشوت ستانی اور اختیارات کے نا جائز استعمال کی بات ہوتی ہے تو یہ سیاست دان منظورِ نظر پولیس افسروں کی حمائت میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ با الطاظِ دیگر ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ چور سپاہی کا کھیل ایک زمانے سے کھیلا جارہا ہے اور یہ نہ جانے کب کھیلا جاتا رہے گا۔ ہمیں پولیس جیسے حساس ادارے کو منظم، تربیت یافہ بنانے اور انہیں پیشہ وارانہ تربیت سے لیس کرنے کے لئے غیر ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔