فوج کی مکمل حمایت حاصل، ماضی میں جب سول حکومتوں ن کرپشن کی تو فوج کیساتھ مسئلہ پیدا ہوا کیونکہ ملٹری کے پاس ساری انٹیلی جنس ہوتی ہے: عمران خان
ڈیووس (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں،)وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی طور پر حل کرنا ہوگا، انڈیا اس وقت فاشسٹ جرمنی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے، امریکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، پاکستان کی موجودہ حکومت کرپٹ نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔بین الاقوامی میڈیا کونسل سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے امریکہ سے وعدے کرکے غلطی کی،امریکہ کو افغانستان میں ناکامی ہوئی تو اس نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ امریکہ سمجھتا ہے کسی بھی مسئلے کا حل طاقت کا استعمال ہے لیکن میں نے ہمیشہ طاقت کے استعمال کی مخالفت کی،میرے موقف کی وجہ سے مجھے طالبان کا حامی بھی کہا گیا لیکن اب امریکہ بھی سمجھتا ہے کہ فوجی طاقت کے ذریعے افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا، پاکستان افغانستان کی صورتحال سے متاثرہوتاہے،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرحدی علاقے متاثر ہوئے، حکومت سرحدی علاقوں کی بحالی کے اقدامات کررہی ہے، افغانستا ن میں امن ہوگا تو وسط ایشیا میں تجارت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ دنیامیں سب سے زیادہ غربت جنوبی ایشیامیں ہے، میرے سب سے زیادہ دوست بھارت میں ہیں، مجھے پتہ تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے بہتر کیے جاسکتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے نریندر مودی سے رابطہ کیا کیونکہ ہم بھارت کے ساتھ تنازعات کا پر امن طریقے سے حل چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے اس کا انتہائی بھونڈے طریقے سے جواب دیا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پلوامہ حملے کے بعد میں نے کہا ثبوت دیں توکارروائی کریں گے، بھارت نے ثبوت دینے کے بجائے بمباری کر دی، بمباری کے بعد بھارت کے ساتھ معاملات زیادہ خراب ہوگئے، مودی نے اپنی ساری انتخابی مہم اسی معاملے پر چلائی۔ اس وقت کشمیر کا بہت برا حال ہے، انڈیا نے وہاں اپنے 9 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے یہ خطہ نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے، امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے، کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حل ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت انڈیا فاشسٹ جرمنی کی طرح چل رہا ہے، اگر آپ انڈیا کا جائزہ لیں تو سارے حالات و واقعات وہی لگیں گے جو ہٹلر کے زمانے میں جرمنی کے تھے۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان 60 کی دہائی میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا تھا لیکن پھر اس کی ترقی رک گئی کیونکہ اداروں کو تباہ کردیا گیا اور بعض خاندانوں نے ذاتی مفادات سمیٹنا شروع کردیے، اس کے نتیجے میں ملک نیچے جاتا گیا اور 2 خاندان امیر تر ہوگئے۔سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی حکومت ہے جس کی فوج پوری طرح حمایت کر رہی ہے، اس سے پہلے فوج اور حکومت کے تنازعات رہتے تھے لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے، جب سول حکومت پیسے بنانا شروع کرتی ہے کرپشن کرتی ہے تو ملٹری کے ساتھ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، کیونکہ فوج کے پاس ساری انٹیلی جنس ہوتی ہے اور انہیں سب باتوں کا پتا ہوتا ہے اس لیے حکومتیں فوج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں امن واستحکام تک ہم ترقی نہیں کرسکتے نہ ہی معیشت بہتر ہو سکتی ہے،اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے،صرف امن کے خواہاں ممالک کا ساتھ دیں گے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے تاہم جب میں بڑا ہوا توبرطانیہ جانے تک مجھے نہیں پتا تھا کہ ایک فلاحی ریاست کیسی ہوتی ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں نے سوچ لیا تھا کہ جب بھی مجھے موقع ملا میں پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بناؤں گا اور اب یہی میرا وڑن ہے کہ ایسی حکومت ہو جو کمزور طبقے کی فکر کرے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان قدرتی مناظر سے مالامال ہے اور اس کو بچانے کے لیے ہم نے ختم کیے گئے جنگلات کی دوبارہ بحالی کے اقدامات کیے ہیں اور خیبر پختونخوا میں صوبائی حکومت میں رہتے ہوئے ہم نے ایک بلین درخت لگائے۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم بننے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ا?ئندہ 4 سالوں میں ملک میں 4 بلین درخت لگائے جائیں گے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے اور شہروں میں ہونے والی ا?لودگی خاموش قاتل بن چکی ہے۔ملکی معیشت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن واستحکام تک ہم معاشی ترقی نہیں کرسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ 1980 کی دہائی میں شروع ہونے والی افغان جہاد کے اختتام کے بعد عسکری تنظیمیں ہمارے پاس رہ گئیں جس کے مضر اثرات کا ہمیں سامنا کرنا پڑا، اسلحے اور منشیات کے کلچر نے ہمیں متاثر کیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان ایک بار پھر امریکا کے ساتھ جنگ میں شامل ہوگیا جس کے نتیجے میں ملک میں دوبارہ بدامنی کو فروغ ملا، نائن الیون کیبعد پاکستان میں بم دھماکے دیکھنے میں آئے اور 70 ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوگئے اور پاکستان کا شمار دنیا کے خطرنات ترین ممالک میں ہونے لگا جب کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا100بلین ڈالرکانقصان ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کسی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے اور صرف امن کے خواہاں ممالک کے شراکت دارہوں گے، ہم نے سعودی عرب،ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں کمی کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے جب حکومت سنبھالی توکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ انتہاپرتھا، سخت معاشی فیصلوں کی وجہ سے عوام کے سخت رویوں کاسامنا کرناپڑا، اس سال ہم اقتصادی گروتھ کیلئے کام کررہے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت پاکستان میں زراعت کی پیداوارمیں اضافے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں سرمایہ کاری لا رہے ہیں، روزگار کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں،نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے پروگرام وضع کیا گیا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، ملک میں کوئلے کے بھی بڑے پیمانے پر ذخائر موجود ہیں، حکومت کی تمام تر توجہ معدنی وسائل کوبروئے کارلانے پر ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تزویراتی لحاظ سے دنیا کے سب سے اہم مقام پر موجود ہے،ایک طرف تیزی سے معاشی قوت بنتا چین ہے تو دوسری طرف معدنی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیائی ممالک ہیں جب کہ تمام معاملات بہتر ہوجائیں تو ایران سے بھی تجارت کے بڑے مواقع موجود ہیں۔افغانستان کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا پاکستان میں اب کوئی دہشت گردی نہیں ہورہی، اب مسئلہ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کاہے، پاکستان افغانستان میں امن کیلئے سہولت کارکاکردارا داکر رہاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کیلئیطالبان اورافغان حکومت کو مل بیٹھنا ہوگا،طالبان اورافغان حکومت مل بیٹھیں گے تومعاملات حل ہوناشروع ہوجائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ میں نائن الیون کیبعد امریکی جنگ میں شراکت داری کا مخالف تھا، نائن الیون میں پاکستان کاکوئی لینادینانہیں تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کوکہا ہے کہ امریکا اور ایران کیدرمیان جنگ نہیں ہونی چاہیے، جنگ سے ہرطرف تباہی ہی تباہی ہوگی، تاہم ڈونلڈٹرمپ نے میرے موقف پر کوئی جواب نہیں دیا، مجھے سمجھ نہیں آتاکہ ممالک تنازعات کاحل فوجی طاقت سیکیوں حل کرتے ہیں۔بھارت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات خوش گوار نہیں ہیں تاہم اگر دونوں ممالک میں تعلقات معمول پر ہوں اور باہمی تجارت ہورہی ہو تو ہم اپنی تزویراتی پوزیشن کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرسکتے ہیں وزیر اعظم نے کہا کہجب سے ان کی حکومت بنی ہے ان کا فوج سے کسی معاملے پر اختلاف نہیں رہا۔۔ وزیراعظم نے پاکستان سٹرٹیجی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستانی سر زمین کئی قدیم تہذیبوں کا مسکن ہے، سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت کو ترقی دی جاسکتی ہے، پاکستان میں کئی سیاحتی مقام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں، پاکستان کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، نوجوانوں کے روزگار کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری لائیں گے، امریکی صدر سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات ہوئی۔ فوری طور پر پاک بھارت جنگ کا خطرہ نہیں، تاہم خدشہ ہے کہ بھارت پلوامہ جیسا حملہ کرکے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کا ملک انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت میں شہریت قانون سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ایل او سی پر کشیدگی کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیبھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ جس ڈگر پر چل رہا ہے وہ تباہ کن ہے،لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کسی بڑے حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہے،پاکستان 60 کی دہائی میں ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت تھی،پاکستان وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں کرپشن کی وجہ سے پیچھے رہا۔
عمران خان
ڈیووس (مانیٹرنگ ڈیسک،آن لائن)وزیراعظم عمران خان سے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ڈیووس میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے نومنتخب صدر ماساتسوگو اساکاوا نے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان اشتراک کار اور تعاون سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر اور سرمایہ کاری کیلئے سفیر عمومی علی جہانگیر صدیقی بھی ملاقات میں موجود تھے۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان سے ان کی بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ بینک کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پاکستانی قیادت کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان بہترین تعلقات کار اور تعاون جاری ہے، پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی اراکین میں شامل ہے اور ہمارے درمیان بہت اچھے تعلقات کار ہیں۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال جب پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام میں گیا تو بینک نے اس کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان میں اصلاحات کے پروگرام، ٹیکس نظام میں بہتری اور سماجی تحفظ کے احساس پروگرام کیلئے معاونت جاری رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں وزیراعظم سے یوٹیوب، سیمنز اور سیپ کے چیف ایگزیکٹوز نے ملاقاتیں کیں جس میں ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ عمران خان سے بین الاقوامی ٹیلی کام کمپنی سیمنز کے سربراہ نے ملاقات کی جس میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر، سرمایہ اور آئی ٹی کے شعبے میں تعاون سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم سے یو ٹیوب کی سی ای او نے بھی ملاقات کی جس میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستانی سیاحت و سرمایہ کاری کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔ وزیر اعظم نے سسٹم، ایپلیکیشنز، پراڈکٹ (سیپ)کو پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے لئے سافٹ ویئر لیبارٹریاں قائم کرنے کی پیشکش کی ہے۔۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، وزیراعظم کے معاون خصوصی سید ذوالفقار عباس بخاری، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف، سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی بھی موجود تھے۔ سیپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے بتایاکہ ان کی کمپنی حکومت پاکستان کے تنخواہوں اور پنشن کے لئے ڈیجیٹل نظام کے انتہائی اہم منصوبے کے ذریعے پچھلے 20 سال سے پاکستان سے منسلک ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت پاکستان نے شہریوں کی شکایات کے ازالے کے لئے سرکاری دفاتر کے ضوابط کو بہتر بنانے اور کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے سمیت نظم و نسق کے لئے ڈیجیٹل ایپلیکیشنز کے استعمال کو اپنی ترجیح بنایا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے سیپ کو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان اقدام اور بالخصوص ڈیجیٹل مہارتوں کی ترقی اور بڑی یونیورسٹیوں کے اشتراک سے نوجوانوں کی تربیت میں مدد کی دعوت دی۔ وزیر اعظم نے سیپ کو پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے لئے سافٹ ویئر لیبارٹریاں قائم کرنے کی بھی پیشکش کی۔ سیپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے نظم ونسق اور اقتصادی شعبے کو ڈیجیٹل بنانے کے لئے حکومت پاکستان کے اقدامات کو سراہا اور انہوں نے نوجوان سافٹ ویئر انجینئرز کو جرمنی میں تربیت فراہم کرنے اور انہیں پاکستان میں سافٹ ویئر کی ترقی کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے سیپ کے عزم کا اظہار کیا۔ دوسری طرف وزیراعظم اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے امریکی کردار کی ضرورت پر زور دیا ہے۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں جبکہ دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔دونوں اطراف نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھی بات چیت کی۔ وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکی کردار کی ضرورت پر زور دیا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات میں صدر ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے خواہش کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ نے افغان مفاہمتی امن عمل سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر عمران خان نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کے لئے صدر ٹرمپ کو پاکستانی کوششوں سے ا?گاہ کیا اور امریکا، ایران کشیدگی میں کمی کیلئے برداشت کا مظاہرہ اور سفارتی چینل کے استعمال پر زور دیا۔
ملاقاتیں