لاء افسروں کی کارکردگی دکھانے کیلئے چیئر مین نیب کو طلب کر سکتے ہیں: لاہور ہائیکورٹ
لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہورہائی کورٹ نے قراردیا ہے کہ چیئرمین نیب یا ڈی جی نیب کوطلب کرنے کاسوچ رہے ہیں کہ وہ آ کر دیکھیں ان کے لاء افسروں کی عدالتوں میں کیا کارکردگی ہے، مسٹر جسٹس محمدطارق عباسی اور مسٹر جسٹس چودھری مشتاق احمدپرمشتمل ڈویژن بنچ نے یہ ریمارکس ڈبل شاہ کے مبینہ ایجنٹ زاہد محمود ملک کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیئے۔درخواست میں موقف اختیار کیاگیا کہ(بقیہ نمبر46صفحہ7پر)
درخواست گزار زاہد محمود نے اپنی زمین اس وقت کے ضلع ناظم کو فروخت کی مگر ادائیگی ڈبل شاہ نے کی تھی، اس سلسلے میں حاصل ہونے والی2کروڑ27لاکھ روپے کی رقم بینک میں منتقل کی تھی،بدقسمتی سے زمین فروخت کرنے کے بعد نیب نے ڈبل شاہ کے خلاف انکوائری شروع کر دی اوردرخواست گزار کو بھی اس کیس میں ملزم بنا دیاگیااوردرخواست گزار کے 3 بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے ہیں،منجمد اکاؤنٹس کو کھولنے کا حکم دیا جائے،نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کی اکاؤنٹس بحالی کی درخواست ٹرائل کورٹ مسترد کر چکی ہے، ملزم کے ایک اکاؤنٹ میں 27 ملین روپے کی رقم موجود ہے، عدالت نے پوچھا ملزم کے کتنے اکاؤنٹس نیب نے منجمد کر رکھے ہیں؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کا ایک اکاؤنٹ ہے جسے منجمد کیا گیا ہے، جسٹس محمد طارق عباسی نے استفسار کیا تو باقی 2 اکاؤنٹس بھی کیا اسی ملزم کے ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ باقی اکاؤنٹس کی حد تک کوئی درخواست نہیں آئی، باقی 2 اکاؤنٹس کا علم نہیں کہ وہ درخواست گزار کے ہیں یا نہیں، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ زاہد محمود ملک کے تینوں اکاؤنٹس منجمد کئے گئے ہیں، نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا مجھے وقت دے دیں میں باقی اکاؤنٹس کے ٹائٹل کنفرم کر دوں گا، جسٹس محمدطارق عباسی نے نیب پراسکیوٹر سے کہا کہ آپ نے عدالت میں برملا تسلیم کیا ہے کہ صرف ایک اکاؤنٹ درخواست گزار ملزم کا ہے، عدالت میں جھوٹ بول کر آپ نے قرآن میں اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے یا پھر آپ نے حقائق چھپا کر اپنے پروفیشن کی اخلاقی ذمہ داری کی خلاف ورزی کی ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا سر میرے علم کے مطابق ملزم کا ایک اکاؤنٹ ہے، عدالت نے کہا یا تو درخواست گزار کا وکیل جھوٹ بول رہا ہے یا پھر نیب پراسیکیوٹر غلط بیانی کر رہے ہیں، جس نے بھی عدالت میں حقائق چھپائے ہیں اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ملزم کے وکیل نے کہا کہ نیب نے اپنے جواب میں تینوں اکاؤنٹس کو تسلیم کیاہے جس پر جسٹس محمد طارق عباسی نے کہا کہ ہم تو سوچ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب یا ڈی جی نیب کو طلب کریں کہ وہ خود آکر دیکھیں ان کے لاء افسروں کی عدالتوں میں کیسی کارکردگی ہے،عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ ملزم نے جو زمین فروخت کی اس کی فروخت کی دستاویزات کہاں ہیں؟وکیل نے کہا میں دستاویزات پیش کرتا ہوں لیکن میری پوری بات سن لی جائے، عدالت نے کہا کہ آپ یہی بات کریں گے کہ زمین زیادہ مالیت کی تھی اور رقم کم ظاہر کی گئی، وکیل نے کہا نہیں سر ایسی بات ہرگز نہیں ہے، اس وقت کے ضلع ناظم نے ٹیکس سے بچنے کے لئے ڈبل شاہ کے ذریعے رقم اداکروائی،عدالت نے کہا ہم نے یہی بات تو پہلے کہی تھی مگر آپ نے انکار کر دیا تھا، زمین کی فروخت کے کاغذات پیش کریں، درخواست گزار کے وکیل نے کہا نیب سے کہیں کہ ہماری رقم رکھ لے اور زمین واپس کر دے، فاضل بنچ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسے کہہ دیں،زمین آپ نے فروخت کر دی،دستاویزات آپ کے پاس موجود نہیں، اب بتائیں کیا کریں۔
لاہورہائی کورٹ