امن کے بغیر معاشی استحکام ناممکن، افغانستان میں امن کیلئے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ماضی کی حکومتوں نے امریکہ سے وعدے کر کے غلطی کی: عمران خان
ڈیووس (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں،)وزیراعظم عمران خان نے کہاہے کہ امن و استحکام کے بغیر معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی، نائن الیون کے بعد پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیا گیا،جب میں حکومت میں آیا تو یہ طے کیا کہ ہم کسی جنگ کا نہیں بلکہ مسائل کے حل کا حصہ ہوں گے افغانستان کے امن عمل میں پاکستان امریکا کو طالبان سے مذاکرات کے لیے تعاون کررہا ہے۔ بدھ کوعالمی اقتصادی فورم کے خصوصی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں ہوگا کیونکہ امن و استحکام کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'جب میں وزیراعظم بنا تو پاکستان میں 10 بلین درخت لگانے کا اعلان کیا جس کے لیے خیبر پختونخوا کے ہمارے تجربے کو استعمال کیا۔ان کا کہنا تھا کہ 'درخت لگانا ہمارے لیے دو معنوں میں ضروری ہے، ایک تو پاکستان میں ماحول کے لیے ضروری ہے اور دوسری آلودگی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کیونکہ لاہور میں آلودگی بڑھ گئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ 'آپ اپنی معیشت کو امن و استحکام کے بغیر مستحکم نہیں کرسکتے، پاکستان نے افغان جنگ میں حصہ لیا اور جب روس افغانستان سے چلاگیا تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے کہا کہ 'معیشت کے لیے امن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب آپ کے معاشرے میں مسلح گروپ ہوں تو یہ ممکن نہیں ہوتا،ن کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کے امن عمل میں پاکستان امریکا کو طالبان سے مذاکرات کے لیے تعاون کررہا ہے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغان جنگ کے باعث معاشرے میں کلاشنکوف اور منشیات کا کلچر آیا، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ نقصان اٹھایا،۔وزیراعظم نے پاکستان سٹرٹیجی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستانی سر زمین کئی قدیم تہذیبوں کا مسکن ہے، سیاحت کے فروغ سے ملکی معیشت کو ترقی دی جاسکتی ہے، پاکستان میں کئی سیاحتی مقام دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں، پاکستان کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، نوجوانوں کے روزگار کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاری لائیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا 60 کی دہائی میں پاکستانی معیشت خطے میں سب سے زیادہ ترقی کر رہی تھی، حکومت میں آنے کے بعد سب سے زیادہ توجہ معیشت پر دی۔ انہوں نے کہا ایران، سعودی عرب تصادم روکنے کیلئے پاکستان نے کردار ادا کیا، امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ڈیووس میں بین الاقوامی میڈیا کونسل سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ فوری طور پر بھارت کے ساتھ جنگ کا کوئی خطرہ نہیں، ہم پرامن طریقے کیساتھ تنازعات کا حل چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سابق حکومتوں نے امریکا سے وعدے کرکے غلطی کی تاہم اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہو رہے ہیں۔ ہم امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی صورتحال سے متاثر ہوتا ہے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو وسط ایشیا تک تجارت ممکن ہوگی۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے سرحدی علاقے متاثر ہوئے۔ ہماری حکومت ان علاقوں میں بحالی کے اقدامات کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا کو افغانستان میں ناکامی ہوئی تو اس نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ امریکا سمجھتا تھا کہ افغان مسئلے کا حل طاقت کا استعمال ہے لیکن میں نے ہمیشہ طاقت کے استعمال کی مخالفت کی۔ میرے موقف کی وجہ سے مجھے طالبان کا حامی کہا گیا۔ امریکا کو آخر کار افغان مسئلے پر مذاکرات کا راستہ نکالنا پڑا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کیسے بہتر کیے جا سکتے ہیں کیونکہ میرے سب سے زیادہ دوست وہاں ہیں، اس لیے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے انڈین وزیراعظم نریندر مودی سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے میری پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا۔وزیراعظم نے بتایا کہ پلوامہ حملے کے بعد میں نے کہا ثبوت دیں تو کارروائی کریں گے لیکن بھارت نے ثبوت دینے کے بجائے بمباری کر دی، اس کے بعد بھارت کے ساتھ معاملات زیادہ خراب اور کشیدگی بڑھ گئی۔ مودی کی غلط پالیسیوں سے حالات خراب ہوتے گئے۔ اب پلوامہ جیسے واقعات دوبارہ رونما ہونے کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر شدید تشویش ہے۔ مودی سرکار نے 80 لاکھ کشمیریوں کو لاک ڈاؤن میں رکھا ہوا ہے۔ مودی حکومت آر ایس ایس کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ اس نے انتخابی مہم پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر چلائی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں شدید احتجاج ہو رہا ہے، حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ بھارت دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کارروائی کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ ایل او سی پر اپنے مبصرین کو کیوں نہیں بھیجتا؟وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکا اور بھارت کے تعلقات سے کوئی سروکار نہیں، امریکی صدر سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات ہوئی۔ فوری طور پر پاک بھارت جنگ کا خطرہ نہیں، تاہم خدشہ ہے کہ بھارت پلوامہ جیسا حملہ کرکے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ارب 30 کروڑ لوگوں کا ملک انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت میں شہریت قانون سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ایل او سی پر کشیدگی کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ امریکا اور اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ عمران خان نے بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ جس ڈگر پر چل رہا ہے وہ تباہ کن ہے،لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کسی بڑے حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہے،پاکستان 60 کی دہائی میں ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت تھی،پاکستان وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں کرپشن کی وجہ سے پیچھے رہا۔
عمران خان
ڈیووس (مانیٹرنگ ڈیسک،آن لائن)وزیراعظم عمران خان سے عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر ڈیووس میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے نومنتخب صدر ماساتسوگو اساکاوا نے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان اشتراک کار اور تعاون سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر اور سرمایہ کاری کیلئے سفیر عمومی علی جہانگیر صدیقی بھی ملاقات میں موجود تھے۔ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایشیائی ترقیاتی بینک کے صدر نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان سے ان کی بہت اچھی ملاقات ہوئی ہے۔ بینک کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پاکستانی قیادت کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے درمیان بہترین تعلقات کار اور تعاون جاری ہے، پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک کے بانی اراکین میں شامل ہے اور ہمارے درمیان بہت اچھے تعلقات کار ہیں۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال جب پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام میں گیا تو بینک نے اس کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان میں اصلاحات کے پروگرام، ٹیکس نظام میں بہتری اور سماجی تحفظ کے احساس پروگرام کیلئے معاونت جاری رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں وزیراعظم سے یوٹیوب، سیمنز اور سیپ کے چیف ایگزیکٹوز نے ملاقاتیں کیں جس میں ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ عمران خان سے بین الاقوامی ٹیلی کام کمپنی سیمنز کے سربراہ نے ملاقات کی جس میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر، سرمایہ اور آئی ٹی کے شعبے میں تعاون سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم سے یو ٹیوب کی سی ای او نے بھی ملاقات کی جس میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے پاکستانی سیاحت و سرمایہ کاری کے فروغ پر بات چیت کی گئی۔ وزیر اعظم نے سسٹم، ایپلیکیشنز، پراڈکٹ (سیپ)کو پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے لئے سافٹ ویئر لیبارٹریاں قائم کرنے کی پیشکش کی ہے۔۔ اس موقع پر وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، وزیراعظم کے معاون خصوصی سید ذوالفقار عباس بخاری، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف، سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی بھی موجود تھے۔ سیپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے بتایاکہ ان کی کمپنی حکومت پاکستان کے تنخواہوں اور پنشن کے لئے ڈیجیٹل نظام کے انتہائی اہم منصوبے کے ذریعے پچھلے 20 سال سے پاکستان سے منسلک ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت پاکستان نے شہریوں کی شکایات کے ازالے کے لئے سرکاری دفاتر کے ضوابط کو بہتر بنانے اور کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے سمیت نظم و نسق کے لئے ڈیجیٹل ایپلیکیشنز کے استعمال کو اپنی ترجیح بنایا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے سیپ کو حکومت کے ڈیجیٹل پاکستان اقدام اور بالخصوص ڈیجیٹل مہارتوں کی ترقی اور بڑی یونیورسٹیوں کے اشتراک سے نوجوانوں کی تربیت میں مدد کی دعوت دی۔ وزیر اعظم نے سیپ کو پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کے لئے سافٹ ویئر لیبارٹریاں قائم کرنے کی بھی پیشکش کی۔ سیپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے نظم ونسق اور اقتصادی شعبے کو ڈیجیٹل بنانے کے لئے حکومت پاکستان کے اقدامات کو سراہا اور انہوں نے نوجوان سافٹ ویئر انجینئرز کو جرمنی میں تربیت فراہم کرنے اور انہیں پاکستان میں سافٹ ویئر کی ترقی کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے سیپ کے عزم کا اظہار کیا۔ دوسری طرف وزیراعظم اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے امریکی کردار کی ضرورت پر زور دیا ہے۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں جبکہ دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔دونوں اطراف نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھی بات چیت کی۔ وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکی کردار کی ضرورت پر زور دیا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات میں صدر ٹرمپ نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے خواہش کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ نے افغان مفاہمتی امن عمل سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر عمران خان نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کے لئے صدر ٹرمپ کو پاکستانی کوششوں سے ا?گاہ کیا اور امریکا، ایران کشیدگی میں کمی کیلئے برداشت کا مظاہرہ اور سفارتی چینل کے استعمال پر زور دیا۔
ملاقاتیں