ایرانی حکام کے بیان پر سعودی وزیر خارجہ کا موقف بھی آگیا
ڈیووس (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ مشروط طور پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن یہ تہران پر منحصر ہے کہ بات چیت کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ایران کو مذاکرات کے لیے یہ شرط قبول کرنا ہوگی کہ وہ اپنے علاقائی ایجنڈے کو تشدد کے ذریعے آگے نہیں بڑھائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مشرق وسطی میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد کشیدگی بڑھنے کے بعد ایران اور سعودی عرب میں لڑائیوں کی باز گشت چل رہی تھی تاہم ایرانی صدر کے چیف آف سٹاف محمود واعظمی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایسے نہیں ہونے چاہئیں جیسے ہمارے امریکا کی طرح ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ کو درپیش مسائل اور خطرات کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کیساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق صدر حسن روحانی کے چیف آف سٹاف محمود واعظی نے کہا ہے کہ ایران کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایسے نہیں ہونے چاہیئے جیسے ہمارے امریکا کی طرح ہیں۔محمود واعظی نے امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ ایران اور سعودی عرب سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے حالات کو کوئی دوسرا ملک نہیں سمجھ سکتا اس لیے مشرق وسطیٰ کو درپیش مسائل اور خطرات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیئے جس کے لیے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اچھے ہونا ضروری ہیں۔
ایرانی صدر حسن روحانی کے چیف آف سٹاف کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے سعودی عرب سے تعلقات کا بہتر ہونا خطے کے امن کے لیے بھی اہم ہے اور دونوں کو مشرق وسطیٰ سے امریکی اثر ورسوخ کا خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیئے۔ایران کا یہ بیان امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے ہلاک ہونے اور ردعمل میں ایران کے امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کے بعد سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہونے کے بعد سامنے آیا ہے جبکہ سعودی عرب نے ایران اور امریکا حالیہ تناو پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
شہزادہ فیصل بن فرحان نے انٹرویو میں میڈیا رپورٹس کو مضحکہ خیز قراردیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب امازون کے بانی جیف بیزوس کے فون کو ہیک کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ان دعوو¿ں کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت مہیا کیے جاتے ہیں تو پھر سعودی عرب ان کی تحقیقات کرے گا۔سعودی وزیرخارجہ نے انٹرویو میں واضح کیا کہ انھیں اس سے کوئی تشویش لاحق نہیں ہوئی ہے کہ اقوام متحدہ کے بیان سے غیرملکی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔اگر کچھ لوگوں کی کوئی تشویش ہے تو ہم اس کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔