شیخ عظمت سعید تحقیقات کی ذمے داری قبول نہ کریں 

 شیخ عظمت سعید تحقیقات کی ذمے داری قبول نہ کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حکومت نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج شیخ عظمت سعید کو براڈ شیٹ کے معاملے کی انکوائری کے لئے کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے، کمیٹی کے دوسرے ارکان کا تقرر اُن کی مشاورت سے ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ کیس کی جامع تحقیقات کرا رہے ہیں اس کیس نے سابق حکمرانوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سابق این آر او دو کروڑ ڈالر کے نقصان کا سبب بنا، انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرکے اپنی پراپرٹی بچائی یہ لوگ آج بھی صرف اپنی دولت بچانے کے لئے این آر او مانگ  رہے ہیں، ہماری حکومت اور ادارے اُن کے پریشر میں نہیں آئیں گے، قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی۔
وزیراعظم نے براڈ شیٹ معاملے کی جامع  تحقیقات کی بات کی ہے،لیکن ابھی تک چونکہ کمیٹی کے ضوابط کار (ٹی او آر) سامنے نہیں،اِس لئے نہیں کہا جا سکتاکہ ان جامع تحقیقات کا دائرہ کتنا وسیع ہو گا۔ البتہ جسٹس(ر) شیخ عظمت سعید کو کمیٹی کا سربراہ بنائے جانے کے متعلق بعض سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں، جن کا جواب ابھی سے سوچ لینا چاہئے۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ کمیٹی تحقیقات کا آغاز اُس وقت سے کرے گی جب نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب یہ معاہدہ ہوا اُس وقت شیخ عظمت سعید نیب میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے منصب پر براجمان تھے اور نیب کے اُس وقت کے چیئرمین جن کی دلچسپی اور منظوری سے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ طے پایا،ان کے باس تھے، لاہور ہائی کورٹ کے جج وہ بعد میں بنے۔ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ کیا شیخ عظمت سعید اپنے سابق باس اور بعض دوسرے سابق ساتھیوں کے خلاف غیر جانبداری سے تحقیقات کر سکیں گے؟ جن کا اس معاہدے کے سلسلے میں نام آ رہا ہے۔ مزید براں جسٹس(ر) شیخ عظمت سعید اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے پانامہ کیس کی سماعت کا آغاز کیااس دوران وہ جے آئی ٹی بنی اور فیصلہ سنایا۔ بنچ کے حکم سے جے آئی ٹی بنی،جس نے ایک معینہ مدت کے اندر دس جلدوں پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ کے بنچ کے روبرو جمع کرائی تھی،جو  مقدمہ پانامہ کی فہرست منظر عام پر آنے کے بعد شروع ہوا (اور جس میں وزیراعظم نواز شریف کا نام نہیں تھا) اس کا فیصلہ ایک اقامے کی بنیاد پر ہوا، جو نواز شریف نے اپنے بیٹے کی کمپنی کی جانب سے حاصل کیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے اس کی تنخواہ نہیں لی، لیکن فاضل بنچ نے قرار دیا کہ بلیک لا ڈکشنری کے مطابق یہ تنخواہ اُن کا اثاثہ تھی، جو انہوں نے ڈکلیئر نہیں کیا اور نتیجے کے طور پر تاحیات قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل ٹھہرے اور اِسی بنا پر انہیں وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں نواز شریف کی بیرونِ ملک جائیدادوں کی مالیت820 ارب ڈالر بتائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے رپورٹ کے اس حصے پر کوئی آبزرویشن نہیں دی،لیکن لندن کے جس ثالث نے براڈ شیٹ کے حق میں ایوارڈ دیا ہے انہوں نے ان جائیدادوں کی مالیت95 ارب ڈالر متعین کی اور اسی حساب سے براڈ شیٹ کا حصہ بھی نکالا، جب ثالث کے روبرو مقدمہ پیش تھا تو نیب نے یہ موقف اختیار کیا کہ نواز شریف کے اثاثے تو100 ارب ڈالر کے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر جے آئی ٹی نے820 ارب کا ہندسہ کہاں سے تلاش کیا اور کیا سپریم کورٹ کے بنچ نے اس پر کوئی سوالات اٹھائے؟ اہم بات یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت تھا تو نیب کچھ اور کہہ رہا تھا، جب ثالثی کے روبرو مقدمہ پیش ہوا تو اس نے اپنا موقف بدل لیا، شاید اس لئے کہ820 ارب ڈالر کا ہندسہ مان لیتے تو براڈ شیٹ کا20فیصد حصہ بہت زیادہ بن جاتا اِس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعداد و شمار کا یہ گورکھ دھندہ وقت، حالات اور مصلحتوں کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا،جب نواز شریف پر ملبہ ڈالنے کی ضرورت تھی تو ایک ہندسہ گھڑ لیا گیا، جب معاہد کمپنی نے مقدمہ کیا اور نظر آیا کہ وہ بہت زیادہ رقم لے اُڑے گی تو ایک دوسرا ہندسہ سامنے لے آئے،نیب کا نقش ِ قدم یوں بھی تھا اور یوں بھی۔ ثالث نے اس میں سے بھی پانچ ارب ڈالر کم کر دیئے۔
 شیخ عظمت سعید ایک نیک نام جج کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی اس نیک نامی پر حرف نہ آنے دیں،لیکن جب وہ اپنے اس دور کے باس اور ساتھیوں کے متعلق تحقیقات کریں گے جب وہ خود نیب میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے تو کیا وہ غیر جانبداری کا وہ اعلیٰ معیار برقرار رکھ پائیں گے جس کی سپریم کورٹ کے ایک جج سے توقع کی جاتی ہے؟ ہمیں اس صاف گوئی سے  معاف رکھا جائے کہ ایک ایسے عہد میں جب کسی پر جانبداری کا الزام لگانا بچوں کا کھیل بن چکا ہے اور حاضر سروس ججوں پر بھی مختلف حلقے یہ الزام تک لگانے سے نہیں چوکتے کہ بعض طاقت ور افراد ججوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اس عہد میں ایک ریٹائرڈ جج اپنے آپ کو ایسے الزامات سے کیسے محفوظ رکھ پائے گا، وہ اگر پوری دیانتداری سے بھی معاملے کی تحقیقات کریں گے تو بھی وہ مخالفین کو مطمئن نہیں کر پائیں گے،اِس لئے حکومت کو کسی ایسے جج کے سپرد یہ ذمے داری لگانی چاہئے،جو کبھی نیب کا ملازم نہ رہا ہو۔ شیخ عظمت سعید اگر تحقیقات کریں گے تو اُن کے کردار پر انگلیاں اٹھتی رہیں گی،اِس لئے اُن کی اپنی نیک نامی کا بھی تقاضا ہے کہ اگر حکومت اُن کے تقرر پر اصرار کرے تو وہ خود یہ ذمے داری قبول کرنے سے معذرت کر لیں، کیونکہ براڈ شیٹ کا معاملہ تو ایسا قمار خانہ بن چکا ہے جہاں بڑے بڑوں کی پگڑیاں اُچھل رہی ہیں۔ براڈ شیٹ کے سربراہ جنہیں بیٹھے بٹھائے ایک بڑی رقم ہاتھ لگ گئی ہے اور جو مزید کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں وہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ فوجی افسر اُن سے رشوت لینے آئے تھے اور کبھی کہتے ہیں وفاقی کابینہ کے ایک موجودہ مشیر نے اُن سے ”کٹ“ مانگا تھا، نہیں معلوم وہ اگلے دِنوں میں کس کس کی دستارِ فضیلت پر چھینٹے اڑائیں گے،اِس لئے بہتر یہی ہے کہ شیخ عظمت سعید اس ذمہ داری سے معذرت کر لیں ایسا نہ ہو براڈ شیٹ کی تحقیقات ان کی نیک نامی اور عزت کو بھی داغ دار کر دے۔

مزید :

رائے -اداریہ -