نئی امریکی انتظامیہ اور ہماری قومی ترجیحات
گزری صدی کمیونزم اور کیپٹلزم کی آویزش سے معمور ہے جاگیرداری و زمینداری نظام نے ایک عرصہ تک دنیا پر حکومت کی اسی نظام کے ساتھ چرچ / مذہب کے اشتراک نے اس کی بدصورتی میں اضافہ کیا حکمران، کسان و مزدور کی محنت سے جو کچھ حاصل کرتا اسے اپنی ذات کے لئے استعمال کرتا۔ مذہبی طبقہ بھی اس سے اپنا حصہ وصول کرتا۔ گویا ملکیت زمین پر مبنی طاقت کا نظام، عوام کی محنت پر قابض ہوتا۔ غربت عام تھی حکمران طبقہ اور مذہبی رہنما مل جل کر پر آسائش زندگیاں گزارتے تھے مغرب میں نام نہاد و مذھیت کے خلاف بغاوت نے حکومت اور چرچ کو علیحدہ ہی نہیں کیا، بلکہ مذہب کو انسانی زندگی سے بھی نکال دیا۔ فرد لامذہب ہو گیاریاست کو مذہب سے الگ کر دیا گیا۔ انقلاب فرانس کے بعد صنعتی انقلاب نے معاشرے کو مکمل طور پر لادین کر دیا۔ معاشرے پر مشین کی حاکمیت چھانے لگی۔ زمین کی ملکیت، فرد کی آزادی، کاروبار/نفع اندوزی کی آزادی کا تصور پھلتے پھولتے سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں ظاہر ہوا۔اسی نظام سے جمہوریت تولد ہوئی۔ برطانیہ میں اس کی تشکیل و ترویج ہوئی۔ آدم سمتھ نے اسے باقائدہ نظام کی شکل دی ”دولت اقوام کی نوعیت“ نامی تحقیقاتی کتاب لکھی جسے سرمایہ دارانہ نظام کی بائبل کہا جاتا ہے امریکہ نے اس نظا م کو بامِ عروج تک ہی نہیں پہنچایا،
بلکہ اس نظام کی بنیاد پر خود سپریم طاقت بن گیا اس نظام کے متوازی اشتراکی نظام تھا،جس کی نظریاتی تخلیق فریڈرک اینجلز اور کارل مارکس نے کی۔ ”کمیونسٹ پارٹی کا منشور“ اشتراکی انقلاب اور اشتراکی ریاست کی بنیاد بنا۔ ویسے صنعتی انقلاب کے بعد جو مختلف نظام ہائے سیاست، معاشرت اور معیشت کی تخلیق اور تشکیل ہوئی اور وہ نئے انسانی تمدن کے ارتقاء کا باعث بنے ان میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام ہی پنپ سکے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دونوں ریاستیں امریکہ و سوویت یونین ترقی کرتے کرتے ”عظیم ریاستیں“ بن چکی تھیں جنگ عظیم اول نے اس دور کی بڑی استعماری طاقتوں کا خاتمہ کیا تھا گزری صدی کے وسط میں یہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے مدمقابل ٹھوک بجا کر آگئیں۔ سرد جنگ شروع ہوئی جو 90 ء کی دہائی تک جاری رہی حتی کے اشتراکی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا پھر امریکہ نے ”تاریخ کے خاتمے“ اور”سفید انسان کی برتری“ کا اعلان کر دیا اور بزعم خود سپریم عالمی طاقت کے منصب پر فائز ہو گیا۔
9/11 نے امریکی غرور پر شدیدضرب لگائی اور پھر طالبان نے افغانستان میں امریکی قوت ہیبت کے غرور کو پاش پاش کر دیا اشتراکی غرور 90ء کی دہائی میں افغانستان میں ہی پاش پاش ہو ا تھا جب اشتراکی افواج عسکری شکست کے بعد یہاں سے واپس ہوئیں اور اس کے بعد اشتراکی ریاست 15 ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر سپر طاقت کے منصب سے فارغ ہو گئی۔ امریکی عسکری غرور بھی افغانستان میں ہی پاش پاش ہوا ہے امریکی افواج شکست کا داغ لئے رخصت ہوا چاہتی ہیں۔ صدارتی الیکشن 2020ء میں امریکہ فکری و عملی طور پر انتشار کا شکار ہو چلا ہے امریکی ریاست کے مرکز (کانگریس بلڈنگ)پر حملہ اس بات کی دلیل ہے کہ معاملات غتر بود ہو چکے ہیں، پھر 20 جنوری کو نئے امریکی صدر نے جس طرح بندوقوں کے سائے میں حلف اٹھایا ہے اس سے بھی امریکی نظام کی کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ اشتراکی نظام کی ناکامی ہو چکی اب سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی ازھرمن الشمس ہے امریکی معاشرے کے تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں ریاست کی کمزوری واضح ہو چکی ہے جبکہ چین ایک توانا معاشی اور تہذیبی طاقت کے طور پر آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے تجارتی جنگ میں چین اپنی برتری ثابت کر چکا ہے۔ کورونا کی جنگ میں بھی چین فاتح نظر آرہا ہے اس بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کے چین مستقبل قریب کی سپر طاقت ہے اسے عالمی منظر پر چھا جانے سے روکنا ممکن نہیں ہو گا۔
جو بائیڈن کو انتشار زدہ ملک ورثے میں ملا ہے ان کا سیاسی اثاثہ خاصا مضبوط ہے وہ اپنے ملک کو ایک بار پھر عظیم بنانے کے لئے پر عظم نظر آرہے ہیں ہم ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر شک نہیں کر رہے ہیں ہم امریکی عوام کی فہم و فراست کے بار ے میں بھی شک نہیں کرتے لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ امریکہ انتشار کا شکار ہو چکا ہے اس کی آہنی قوت میں واضح دڑاریں پڑ چکی ہیں آنے والے وقت میں معاملات مزید واضح ہوں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ نئے منظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟نئی امریکی انتظامیہ خطے میں اپنی موثر موجودگی کو یقینی بنانے کی کاوشیں کرے گی۔ افغانستان میں شکست کھانے کے باوجود، امریکہ یہاں اپنے مفادات کو کسی نہ کسی حد تک یقینی بنانے کی سنجیدہ کاوشیں کرے گا۔اس کے لئے اسے پاکستان کی حمایت و تعاون درکار ہو گا۔ امریکی وزیر دفاع اس حوالے سے نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ پاکستان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے اور امریکہ اسے تسلیم بھی کر چکا ہے۔ دوسری طرف بھارت ان کا سٹرٹیجک پارٹنر رہے گا۔ چین کو محدود کرنے کی امریکی پالیسی جاری رہے گی۔یہ الگ بات ہے کہ جس طرح ٹرمپ نے مودی سرکار کو ہر جائز ناجائز کام کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی، اب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، لیکن بھارت امریکہ تعلقات میں گرم جوشی برقرار رہے گی۔نئی امریکی انتظامیہ میں بھارتی نژاد وں کی موجودگی بڑی اہم ہے دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے قومی مفادات کا تحفظ کیسے یقینی بنائیں گے۔ مسئلہ کشمیر پر ہم کیسے امریکی حمایت حاصل کر سکیں گے؟ چین کے مقابل، بھارت امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے، چین پاکستان کا حلیف ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان خطے میں سی پیک کے ذریعے چین کا سٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے۔ سی پیک کے مقابل بھارت ایران کا پارٹنر بنا۔
گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار کو ڈویلپ کر نے کے لئے بھارت ایران معاملات آگے بڑھتے بڑھتے رک گئے ایران نے بھارت کو چاہ بہار سے رخصت کر دیا ہے چین نے ایران کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دے کر جاری معاملات کو الٹ پلٹ کر دیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ خطے میں نئی الائنمنٹ ہونے جارہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ بدلتے ہوئے اور بدلے ہوئے حالات میں ہماری ترجیحات کیا ہو سکتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پر ایک با ر پھر ”ڈومور“کا مطالبہ مسلط کر دیا جائے گا۔ افغانستا ن میں ہماری کاوشوں کی تعریف کرتے ہوئے ہم پر کاوشیں جاری رکھنے کی باتیں ہونگی اور طاقت و قوت کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہی رہے گا؟ نئی امریکی انتظامیہ بھی بھارت نوازی کرے گی مسئلہ کشمیر پر ہم کس طرح امریکی انتظامیہ پر دباؤ ڈال سکیں گے؟ معاملا ت واضح ہونے کے باوجو دہمارے لئے الجھے ہوئے نظر آرہے ہیں ہم اندرونی مسائل میں بری طرح الجھے اور پھنسے ہوئے ہیں ہماری قومی ترجیحات کیا ہیں؟کیا ہونی چاہئیں؟اور طے کردہ قومی ترجیحات کے مطابق عمل پیرا کیسے ہو سکیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہمارے حال اور مستقبل کا تعین کرے گا۔