اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں عدالتی معاون خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ جس عدالتی بنچ نے ابتدا ءمیں سوالات فریم کیے اسی بنچ کو کیس سننا چاہیے تھا۔
نجی ٹی وی چینل "ایکسپریس نیوز" کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کی سماعت کی، عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہاکہ آرٹیکل 191اے آئین کا حصہ، کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا، ریگولر بنچ کے سامنے آئینی نقطہ آیا تو اسے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیجناچاہیے تھا،اگرآپ کا پچھلا عدالتی بنچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ فیصلہ خلاف قانون ہوتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ایک جوڈیشل آرڈر پر رجسٹرار آفس کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا تھا،جوڈیشل آرڈر کے باوجود انتظامی کمیٹی نے کیس ہی لے لیا، ایسے میں تو عدلیہ کی آزادی انتظامی کمیٹی کے ہاتھ چلی جائے گی،ہمارا اختیارسماعت تھا یا نہیں، اس پر فیصلہ توہوا ہی نہیں،شاہد ہم بھی یہ کہہ دیتے ہمارا اختیار نہیں،ابھی ہم نے 63اے کا ایک کیس تھا اس میں ریگولر بنچ میں فیصلہ دیا، یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بنچ میں لگا دیا۔
خواجہ حارث نے کہاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ڈائریکٹ کیس آئینی بنچ میں نہیں لگا سکتی، آئینی بنچ میں کیس آئینی کمیٹی ہی لگا سکتی ہے،اگر سادہ کمیٹی نے ایسا کیا تو غلط کیا ہے،مجھے پتہ چلا جو بنچ پہلے کیس سن رہا تھاوہ اگلے ہفتے کیلئے بنچ شیڈول میں نہیں تھا، ایسی صورتحال میں کمیٹی کیس کسی اور بنچ میں لگا دینے کی مجاز ہے،کمیٹی کا کیس واپس لینا اس کے آئینی مینڈیٹ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے،اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے،پریکٹس اینڈپروسیجر آج بھی ایک نافذ العمل قانون ہے،سپریم کورٹ کا بنچ قانون کے مطابق ہی کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔